مجوزہ اے پی سی اور آئین کی پابندی!!!

0
62

جماعت اسلامی نے عیدالفطر کے بعد آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔کانفرنس یک نکاتی ایجنڈے پر بلائی جا رہی ہے جس میں شریک جماعتوں کے رہنما ایک ہی روز عام انتخابات کے انعقاد پر تبادلہ خیال کریں گے۔ رپورٹس کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کو کانفرنس میں مدعو کرنے کے لئے رابطے شروع کر دیے گئے ہیں۔جماعت اسلامی سے مذاکرات پرویز خٹک اعجاز چوہدری اور محمود الرشید کریں گے۔بتایا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ نواز سعد رفیق اور ایاز صادق کو مذاکرات کے لئے نامزد کرنے کا عندیہ دے رہی ہے۔ کانفرنس میں متحارب فریقین کو لچک دکھانے کی درخواست کی جائے گی۔حکومت کو اکتوبر سے قبل اور تحریک انصاف کو مئی 2023 کے بعد الیکشن کے لئے رضا مند کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ جماعت اسلامی تحریک انصاف اور مسلم لیگ دونوں کی الگ الگ دور میں اتحادی رہی ہے۔ جماعت اسلامی نے گزشتہ چند برسوں میں خود کو دو انتہائوں میں تقسیم سیاسی صف بندی سے الگ رکھا ہے اس لئے اس کی جانب سے بیانات سیاسی ماحول میں تلخی نہیں گھولتے۔امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق کی جانب سے تصادم پر مبنی موجودہ سیاست میں کئی بار مثبت فیصلے دکھائی دیے۔ انہوں نے منصورہ میں پیپلز پارٹی کی قیادت کا استقبال کیا اور لیفٹ رائٹ کی بنیاد پر عشروں تقسیم رہنے والی سیاست کو باہمی مکالمہ کی طرف مائل کیا۔تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان پر وزیر آباد میں قاتلانہ حملہ ہوا تو سراج الحق ان کی مزاج پرسی کے لئے گئے۔ امیر جماعت اسلامی کے اعتدال اور توازن پر مبنی طرز فکر کے باعث انہیں عمومی طور پر غیر متنازع شخصیت تصور کیا جاتا ہے۔پاکستان کی سیاست جس طرح مکالمہ برداشت اور تحمل سے محروم ہوتی جا رہی ہے اس فضا میں ایسی غیر متنازع شخصیت اور ان کی جماعت کی طرف سے مصالحانہ کردار سب کے لئے قابل قبول ہو سکتا ہے لیکن یہ ایک ہموار صورتحال کی تصویر ہو گی۔موجودہ سیاست ہموار نہیں۔ذاتی دشمنی، ریاست مخالف رویوں اور آئین شکنی پر ضد کے عناصر پرورش پا رہے ہیں۔اس صورتحال میں صرف جماعت اسلامی اس قدر بھاری بوجھ اٹھا پائے گی یا اسے کسی دوسرے کی مدد لینا پڑے گی اس کا تجزیہ کر کے ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کئی ہفتے قبل کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی سے بھی مذاکرات پر تیار ہیں۔ دوسری طرف حکومت کی حالت یہ ہے کہ وزیر داخلہ سرعام کہہ رہے ہیں کہ جتنا مرضی زور لگا لیں الیکشن 14مئی کو نہیں ہوں گے وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ ر واں برس ہی میں ہوں گے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ سٹیٹ بنک کا جو افسر سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن کو 21ارب روپے جاری کرے گا اس سے یہ رقم وصول کی جائے گی۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت 14مئی کو پنجاب میں انتخابات کا حکم دے چکی ہے حکومت اس حکم کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔اس حکومتی موقف کے ساتھ مذاکرات شروع ہو بھی جائیں تو ایک نیا نظریہ ضرورت پیدا ہو جائے گا۔آئین نے واضح کر دیا کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے 90روز کے اندر انتخابات کرائے جائیں گے۔اس میں اگر مگر کی قطعی گنجائش نہیں۔ جماعت اسلامی کی جانب سے جو ابتدائی تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق اے پی سی کا یک نکاتی ایجنڈہ پورے ملک میں ایک ہی روز انتخابات کرانے پر سب جماعتوں کے مابین اتفاق رائے پیدا کرتا ہے۔ اس ایجنڈے پر مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتوں کو قطعی اعتراض نہیں ہو گا۔ جہاں تک پی ٹی آئی کی بات ہے تو وہ ایک جماعت کی حد تک اپنے تحفظات پر آل پارٹیز کانفرنس میں بات کر سکتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات نہ کرانے سے آئین شکنی کا جو خدشہ پیدا ہو رہا ہے اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہو گی۔کیا آئین شکنی کو سیاسی مصلحتوں کی نذر کر دیا جائے گا؟پھر جو ریاستی ادارے آئنی طور پر حکومت کے تابع ہیں کیا وہ آئین شکنی کے باوجود حکومت کے تابع رہیں گے ؟ سندھ بلوچستان اور قومی اسمبلی کے انتخابات اگر ایک ہی روز کرا دیے جاتے ہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔آئندہ اسمبلی منتخب ہو تو یہ اس کا اختیار ہو گا کہ 90روز میں انتخابات کرانے کی پابندی ختم کر دے لیکن سردست یہ شرط موجود ہے اور اسے سادہ قانون سازی سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔جماعت اسلامی کو اس سلسلے میں سینئر قانون دانوں سے مشاورت کر لینی چاہیے۔حالیہ دنوں لاہور میں 50سینئر قانون دانوں نے گول میز کانفرنس کی ہے۔ان سینئر قانون دانوں نے اس امر پر اتفاق کیا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات 14مئی سے آگے نہیں کئے جا سکتے اور اگر حکومت ایسا کرے گی تو اس پر آئین شکنی کا مقدمہ بنایا جا سکتا ہے۔سیاسی امور پر اختلاف پر مذاکرات ہو سکتے ہیں لیکن آئینی پابندی ہٹانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ پارلیمنٹ آئینی ترمیم منظور کر لے۔موجودہ اسمبلی کی نصف تعداد ایوان میں موجود نہیں۔ جو لوگ اجلاس میں حاضر ہو سکتے ہیں ان کی بھی نصف تعداد قانون سازی یا معمول کے امور میں دلچسپی لیتی ہے۔اس لحاظ سے حکومت ایک چوتھائی اراکین قومی اسمبلی کی حمایت سے آئین کو چیلنج کر رہی ہے۔کیا اب یہ سمجھ لیا جائے کہ ریاست اور اس کا آئین ہٹ دھرم حکومتوں کا کھلونا بن گئے ہیں؟
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here