نہ کہیں مزار ہوتا!!!

0
40
سردار محمد نصراللہ

قارئین وطن! ہوئے ہم جو مر کے رسوا، ہوئے کیوں نہ غرق دریا ۔ نہ کہیں جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا! یونان کے سمندر کی لہروں کی نظر ہونے والے بدقسمت پاکستانیوں کی تعداد تھی سوار تھے پر کاتب تقدید کی درازی عمر کی رسی ابھی طویل ہے جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے لیکن کسی کو معلوم ہے یہ لوگ کون ہیں جو بہتے ہوئے پانیوں میں بہہ گئے ۔۔ یہ سب سفید پوش اور زیریں کلاس سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے اِن میں کسی جرنیل کسی جج کسی فیڈرل سیکٹری کسی آئی جی پولیس کسی سیاست دان کسی بزنس مین کا بیٹا بھائی باپ یا رشتہ دار نہ تھا یہ وہ لوگ تھے جن کے لئے کسی کے باپ نے زمین بیچی کسی کی ماں نے زیور بیچا تاکہ اپنا اور اپنے خاندان کا بہتر مستقبل بنا سکیں ان بدنصیب مرنے والوں میں ایک بھی ہماری سو کالڈ اپر کلاس سے نہیں تھا اور نہ ہی ان کا کوئی رشتہ دار یہ لوگ تو اگر ڈوبتے ہیں تو بند بوتلوں کے پانیوں میں تاکہ پھر ابھر سکیں سفید پوشوں کو ڈبونے کے لئے ۔
قارئین وطن! ڈوبنے والے کیا کیا خواب لے کر اپنے سفر پر نکلے انہیں کیا خبر تھی کہ ان کے نصیب میں سمندر میں غرق ہونا لکھا تھا اور خاندان کے مقدر میں رونا ایک صاحب نے بتایا کہ ہر ڈوبنے والے نے چوبیس چوبیس لاکھ ایجنٹ کو دئے اپنی سفید پوشی کو ڈھکنے کے لئے کہ وہ بھی یورپ اور امریکہ پہنچ کر اپنے پچھلوں کو سفید پوشی پر پردہ ڈالیں گے سب سے پہلے تو ان لوگوں نے اپنے والد کا مہاجن سے لیا قرض اتارنا تھا کسی زردارسیاپنی ماں کا گروی رکھا زیور چھڑانا تھا کسی نے اپنی بہن کو رخصت کرنا تھا لیکن جانے والا تو چلا گیا پچھلوں جو تمام عمر کے لئے رونے کو چھوڑ گیا ۔ اس طرح کے چھوٹھے موٹے حادثہ ہوتے رہے کوء یورپ کے سمندر میں غرق ہوا کوئی میکسیکو کے باڈر پر مارا گیا لیکن کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ کسی جرنیل کسی وزیر کسی جج کسی فیڈرل سیکٹری کے بیٹے کو سمندر کی لہروں میں ڈوبتا ہوا دیکھا کسی کو میکسیکو کے باڈر پر گولی لگتے دیکھی ان کے بچے تو اسکالر شپ پر آتے ہیں ہم نے تو کسی کو اپنے باپ کی زمین کسی مہاجن سے چھڑانے کی فکر کرتے نہیں دیکھا کسی کو اپنی ماں کے زیور کی پرواہ کرتے نہیں دیکھا ہم اپنی آستینوں میں چھپے ان سانپوں کو کیوں نہیں پہچانتے جو ہمیں سالوں سے ڈس رہے ہیں ہمارے ہمدرد بن کر مجھے میر تقی میر کا شعر یاد آگیا ہے لیکن میر صاحب کی روح سے بڑی معافی کے ساتھ لفظ دہلی کی ترمیم کرکے!
کراچی اور لاہور کے امیر زادوں سے نہ ملا کر تا مقدور
کہ ہم فقیر ہوئے ہیں ان ہی کی دولت سے
قارئین وطن! وطن کی معاشی صورتِ حال یہ ہے کہ ہر شخص ملک سے بھاگ جانا چاہتا ہے جیسے کوا گلیل سے جب سے یہ منحوس حکومت ہم پر مہربانوں نے مسلط کی ہے ایک سال کے اندر اندر تقریبا ساڑھے سات لاکھ لوگ ملک چھوڑ کر چلے گئے اپنا اور اپنے گھر والوں کے بہتر مستقبل کے واسطے وہ بس ملک سے بھاگ جانا چاہتے ہیں اس کی پرواہ کئے بغیر کہ وہ ڈوبتے ہیں گولی سے مرتے ہیں یا ہیومن اسمگلر کے ٹرک میں جان دیتے ہیں بس وہ چلے جانا چاہتے ہیں ان منحوس حکمرانوں کے پنجے سے آزاد ہونا چاہتے ہیں ۔ اللہ پاک ان سب مرنے والوں کی مغفرت فرمائے لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے یہ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے چاہئے وہ جس صورت میں بھی ہے کہ مرنے والوں کے خاندان کی کفالت کے لئے کوئی فنڈ قائم کرے تاکہ ان پر جو بوجھ ہے کسی طور اتارا جا سکے اور اس کے ساتھ ساتھ ملک کی ڈوبتی ہوئی معیشت کو بہتر کرنے کی کوشش کرے کہ اس سے پہلے ملک کا اعلی دماغ ڈرین آوٹ ہونے سے بچا جائے ۔ حکومت وقت کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ان ایجنٹوں کا بھی کھرا لگائے جنہوں نے ان ڈوبنے والوں کو ان کی تعداد سے زیادہ اس کشتی میں سوار کیا ایف آئی اے کو بجائے سیاسی کارکنوں کے خلاف جھوٹے مقدمہ بنانے کے بجائے ہومن اسمگلنگ کے روکنے پر زیادہ توجہ دینی چاہئے ۔
قارئین وطن! جتنے ڈوبنے وآلے تھے ان کا تعلق پنجاب سے تھا آصف خاص طور سے ان علاقوں سے جس کے بارے نواز اور شہباز شریف کا دعوی تھا کے انہوں نے ان ڈوبنے والوں کے اضلاح میں بہت ترقی کی ہے اور اب لوگوں کو وطن سے باہر جا کر روز گار تلاش کرنے کی ضرورت نہیں لیکن ان کی ترقی جسکا منہ بولتا ثبوت ان ڈوبنے والوں کی شکل میں ہمارے سامنے ہے کاش ہماری عوام کا شعور جاگ جائے اور ان کو یہ بات سمجھ آ جائے کے مرنے والے سفید پوش خاندانوں سے تھے ان میں کوئی جرنل یا فیڈرل سیکٹری یا جج کا بچہ نہیں تھا سب ضرورت مند خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے جن کا مطمئع نظر اپنا اور خاندان کے مستقبل کو سنوارنہ تھا ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here