میں پاکستان سے غداری نہیں کر سکتا!!!

0
268
حیدر علی
حیدر علی

وزیراعظم عمران خان جب وہائٹ ہا¶س پہنچے تو صدر ڈونلڈ ٹرمپ اُنکا انتظار کر رہے تھے لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ مصافحہ کرنے سے قبل وزیراعظم عمران خان کو سر سے پیر تک ایک طائرانہ نظر سے دیکھا اور پھر کہا کہ ہمارے انکل بھی اِسی طرح کا پاجامہ اور قمیض پہنا کرتے تھے لیکن ان کے سر پہ ایک گول ٹوپی ہوا کرتی تھی۔ You know وہ ہاف مسلم ہاف کرسچین تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر جنت کا ایک دروازہ بند ہوگا تو دوسرے دروازے سے وہ اُس میں داخل ہو جائیں گے۔ اسی اثنا وزیراعظم عمران خان کو اپنی بیگم پیرنی بشریٰ بی بی کی یاد دہانی یاد آگئی اور وہ دِل ہی دِل میں درود شریف کا ورد کر نے لگے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ انتہائی خوشگوار موڈ میں تھے جسے عمران خان نے خدا کی رحمت سے ہی باور کیا تھا۔ دوسرا نیک شگون سابق سیکرٹری آف سٹیٹ ریکس ٹیلرسن کی عدم موجودگی تھی جن کی عمران خان سے کئی مرتبہ تو تو میں میں ہوچکی تھی بلکہ ٹیلر سن نے عمران خان کو یہ بھی کہہ دیا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ کس کی اولاد ہیں اور ان کے والد رشوت لینے کے الزام میں ملازمت سے بر طرف کر دیئے گئے تھے۔ سب جانتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان میں برداشت کرنے کا مادہ سمندر سے زیادہ وسیع ہے اور وہ ٹیلر سن کی مغلظات کو بھی ملک و قوم کی خاطر برداشت کر لیا تھا۔ اوول آفس کی جانب بڑھتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو کہا کہ یہ آپ کی بڑی خوش قسمتی ہے کہ آپ صدر امریکہ بن گئے ہیں۔ صدر امریکہ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ”ہمارے لئے یہ کوئی اہم بات نہیں ہے جب میں صدر نہ تھا ، تب بھی بیوروکریٹس، فوجی جنرلز اورسیاستدان نوکریوں اور چندے کیلئے میرے ارد گرد گھومتے رہتے تھے اور ان میں سے کچھ ہمارے مخالف بن گئے ہیں اور اپنے پیر پہ کلہاڑی مار لی ہے۔ ہر کوئی صدر امریکہ بننے کا خواب دیکھتا ہے لیکن وہ اس حقیقت کو فراموش کردیتا ہے کہ صدر بننے کیلئے اس کے پاس دولت، ہمت اور ساتھ ساتھ قسمت کا ہونا لازمی ہے ورنہ صدر امریکہ کا خواب دیکھنے والے لوگ میئر کے عہدے پر ہی ٹائیں ٹائیں فِش ہوجاتے ہیں۔قطع نظر ان باتوں کے ہمارے کچھ ساتھیوں نے مجھ سے یہ توقع لگا رکھی ہے کہ میں وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکہ کو سبوتاز کرنے کی کوشش کروں اور یہ راگ الاپوں کہ ان کا دورہ صریحاً ناکامیاب ہوگیا ہے۔ ہمارے لئے ایسا کرنا مادر وطن سے غداری کے مترادف ہے۔ خصوصی طور پر اس وقت جب پاکستان کو معاشی طور پر اپنے پیر پر کھڑا ہونے کیلئے امریکہ جیسے دوستوں کی ضرورت ہے، دشمنوں کی نہیں اور وزیراعظم عمران خان کا دورہ امریکہ اس جانب ایک انتہائی مثبت قدم ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا وزیراعظم عمران خان کو یہ کہنا کہ دونوں ملکوں میں تجارتی حجم میں اضافہ کی قوی گنجائش موجود ہے اور اس مد میں 10سے 20فیصد تک امروز فردا میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ضمن میں مزید کہا کہ امریکہ کی معیشت کی تازہ ترین اعداد و شمار جو انہیں دستیاب ہوا ہے۔ اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ وہ تاریخ کے بہترین دور میں ہے، اور وہ چاہتے ہیں کہ اس سکے ثمرات سے پاکستان کو بھی فیضیاب کرائیں۔ پاکستان اور امریکہ کے مابین تجارتی حجم میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ 2018ءمیں تجارتی لین دین کی رقم 6.6بلین ڈالر تک پہنچ گئی تھی، جس میں امریکہ سے درآمدات کی رقم 2.9 بلین ڈالر اور برآمدات 3.7 بلین ڈالر تھی۔ درآمدات میں زرعی اشیاءپیش پیش تھیں جن میں سوئبین، کاٹن، خشک میوہ جات، مشینری، سونا، سٹیل، لوہا اور میڈیکل انسٹرمنٹ شامل تھے۔ پاکستان سے برآمد کی جانے والی اشیاءمیں زیادہ تر ٹیکسٹائل‘ بُنے ہوئے کپڑے اور چمڑے کے ساز و سامان ہیں۔
پاکستان ماضی میں ایک زرعی ملک تھا لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہم آج غذائی اجناس کے درآمد میں بلین آف ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان اقتدار میں آتے ہی غذائی طور پر پاکستان کو خود کفیل کرنے کا عہد کیا ہے۔ انہوں نے مرغیاں پالنے کی سکیم کو روشناس کرایا جس سے آج لاکھوں لوگ مستفید ہورہے ہیں۔ کیا لائق تحسین سکیم یہ ہے کہ ایک پاکستانی صرف 1200 روپے میں پانچ مرغیاں اور ایک مرغا حاصل کر سکتا ہے اور یہ مرغیاں دو سے تین ہفتے میں انڈے دینے کے قابل بن جاتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جلد اسی طرح کی سکیم بکریاں، گائے اور بھینس پالنے کی بھی شروع کی جائیں اور جو زمیندار اپنی زمینوں پر کاشت نہیں اگارہے ہیں، ان کی زمین کو حکومت تحویل میں لے کر کاشتکاروں میں تقسیم کر دے تاکہ پاکستان کی ایک انچ زمین بھی بیکار نہ ہو۔
وزیراعظم عمران خان کے دورے نے امریکہ میں جو دورس اثرات چھوڑے ہیں‘ اس کی نظیر شاذو نادر ہی ماضی میں ملتی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اہلیہ میلانیا ٹرمپ نے جس گرمجوشی اور دلکش انداز سے پاکستانی وفد کا استقبال کیا تھا، وہ اس حقیقت کی عکاسی کر رہا تھا کہ وفد میں پڑھے لکھے افراد شامل تھے اور انہیں آگاہی تھی کہ کس وقت کون سا لباس پہننا چاہیے ورنہ کوئی بعید نہ تھا کہ وہ وفد کو وہائٹ ہا¶س سے یہ کہتے ہوئے باہر نکال دیتی کہ ”چلو جی جب تمہارا وزیر اعظم اوول آف سے باہر آئے تو پھر ادھر کو آنا“۔ وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکہ سے چند پاکستانی صحافی جن میں حامد میر بھی شامل ہیں، ناراض معلوم ہوتے ہیں۔ ظاہراً ناراضگی کی وجہ یہ ہے کہ ماضی کی طرح انہیں دورے میں شامل ہونے کا دعوت نامہ نہ مل سکا۔ وزیراعظم کا یہ فیصلہ بھی قابل ستائش ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here