پاکستان ممکنہ طور پر اپنے فوری معاشی بحران سے نکل سکتا ہے۔ تاہم، یہ سب یقینا اچھی خبریں نہیں ، ہم اور آپ چاہتے ہیں کچھ امید افزا دیکھیں ،المیہ یہ ہے کہ اگر کچھ اچھا ہوتا ہے تو اسے نمایاں مباحث کا حصہ نہیں رکھا جاتا۔ سیاسی چیلنجز کے باوجود معاشی محاذ پر اچھی خبریں آنے لگی ہیں۔آئی ایم ایف سے 7 ارب ڈالر قرض کی منظوری کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔240 ملین سے زیادہ آبادی والا مسلم ملک ، جوہری ہتھیاروں والی طاقت اور دنیا کی چھٹی سب سے بڑی مستعد فوج کے ساتھ پاکستان ہمیشہ مایوسی اور ابتری کا شکار نہیں رہ سکتا۔ ایک بحران سے دوسرے بحران کی طرف لپکتا منظرنامہ جلد تبدیل ہونے کے امکانات موجود ہیں۔ بلاشبہ رواں سال فروری کے انتخابات نے حکومتی پالیسیوں پر ایک بڑی نوجوان آبادی کے عدم اطمینان کا انکشاف کیا جس کے پاس معاشی مواقع نہیں اور وہ ملک کی خاندانی سیاسی جماعتوں سے ناراض ہیں۔ 8 فروری کو ہونے والے پاکستان کے 12ویں عام انتخابات ملک کے دیرینہ مسائل کے حل کا ذریعہ نہیں بن سکے۔وجہ سیاسی کشیدگی، انتظامی صلاحیت اور استعداد میں کمی کے حوالے سے دکھائی دی۔ نئی مخلوط حکومت اور ادارے ایک پیج پر ہیں ، حکومت کے لئے اسٹیبلشمنٹ کی مسلسل حمایت سیاسی استحکام میں مدد دے سکتی ہے۔یہ ایک پیج پر ہونا دیر سے سہی تاہم نتائج دینے لگا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے نئے پروگرام اور چین و عرب خلیجی ریاستوں کی سٹریٹجک سرمایہ کاری کے ساتھ، حکومت نے جمعرات کے روز اعلان کیا کہ اس نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ تمام مسائل کو خوش اسلوبی سے حل کر لیا ہے جس سے اس ماہ 7 بلین ڈالر کے قرض کی منظوری کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ یہ قرض ٹیکس دہندگان کے گلے کو مزید پکڑنیکے لیے اگرچہ تیار ہے لیکن اس دوران حکومت کو نئے اہداف کے مطابق معاشی و مالیاتی پالیسی ترتیب دینے کا موقع مل جائے گا۔ حکومت نے انکم ٹیکس ریٹرن کے موجودہ فائلرز کو اثاثوں کی خریداری کے حق سے محروم کرنے کے لیے ترامیم تیار کی ہیں، اگر شہریوں کے اعلان کردہ نقد بیلنس اور آمدنی کا تخمینہ نئے اثاثوں کی قیمت سے کم ہو تو۔یہ قدم نئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین کی جانب سے ٹیکس سال 2024 کے لیے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والوں کے موجودہ 60 لاکھ سے کم ڈیٹا کا تجزیہ کرنے کے بعد اٹھایا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ 60 لاکھ انکم ٹیکس گوشواروں میں سے بمشکل 45,000 پاکستانی فائلرز ہیں جو 10 ملین روپے سے زائد کی سالانہ آمدنی ظاہر کر رہے تھے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ان معاملات کو سلجھانے کے بعد خبر دی ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ تمام مسائل خوش اسلوبی سے حل ہو گئے ہیں اور رواں ماہ IMF بورڈ ان مسائل کو حتمی شکل دے گا۔دوسری طرف حال ہی میں کی گئی سٹیٹ بینک کی شرح سود میں کمی سے معاشی سرگرمیوں کو تیز کرنے میں مدد ملے گی۔ مالیاتی بہتری کی ایک علامت روپے کی قدر کا مستحکم ہونا ہے۔ روپیہ نے جاری کیلنڈر سال (2024) میں استحکام اور مضبوطی کے راستے پر اپنے سفر کو برقرار رکھا ہے ۔ڈالر کے مقابلے میں روپے کی شرح تبادلہ نسبتا مستحکم ہو رہی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ گزشتہ کچھ مدت کے دوران، ملکی کرنسی جو لچکدار رہی ہے اس کو طاقتور امریکی ڈالر کے مقابلے میں 10 بیسس پوائنٹس سے زیادہ کی روزانہ کی صرف دو کمی کا سامنا تھا۔ اس حقیقت کی طرف توجہ مبذول کرانا ضروری ہے کہ پچھلے سال (جنوری-مئی 2023) کے دوران روپیہ سب سے زیادہ اتار چڑھاو والے مراحل میں سے گزرا،لیکن اطمینان بخش بات یہ ہے کہ کرنسی اب اپنے سب سے کم اتار چڑھاو والے زون میں داخل ہو گئی ہے۔حکومت نے سٹیٹ بینک کے ساتھ لین دین پر لاگو ہونے والی شرح مبادلہ سے متعلق متعدد ضابطوں کو ختم کر دیا، ساتھ ہی درآمدات کے لیے پیشگی ادائیگیوں پر پابندی کے نتیجے میں تمام باقی ماندہ زر مبادلہ کی پابندیاں بھی ختم کر دیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بعد ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ میں مدد ملے گی، فنڈز کو کھول کر اور کثیر الجہتی اور دو طرفہ شراکت داروں کے ذریعے قرض لینے اور رول اوور کی نئی راہیں کھلی ہیں،رول اوور کی جگہ قرض کی ادائیگی کا با اعتماد نظام ترتیب دیا جانا ضروری ہے۔ کورونا وائرس نے عالمی پٹرولیم انڈسٹری پر بہت منفی اثر ڈالا۔ پوری دنیا میں ایندھن کی طلب میں نمایاں کمی آئی اور تیلو گیس کی صنعت کو ضرورت سے زیادہ سپلائی کر دی گئی۔ پاکستان میں ایندھن کی کھپت میں بھی جون جولائی مالی سال 2019-2020 کے دوران 11 فیصد کی کمی واقع ہوئی کیونکہ سخت لاک ڈاون نافذ کیا گیا تھا اور کوروناکے خوف نے زیادہ تر لوگوں کو گھر میں محصور کر رکھا تھا۔کارپوریٹ سیکٹر کی طرف سے گھر سے کام کرنے کی مختلف پالیسیوں کا اعلان کیا گیا۔ کورونا کی وجہ سے پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں گزشتہ 10 سے 12 سال کی کم ترین سطح پر آگئیں۔ جون 2020 میں ملک میں پٹرول کی قیمت 74.52 روپے فی لیٹر کی ریکارڈ کم ترین سطح پر پہنچ گئی۔ اس کے علاوہ، سخت لاک ڈاون اقدامات کی وجہ سے، ملک کے کچھ علاقوں نے بھی ایندھن کے بحران کی اطلاع دینا شروع کردی۔ملک کی غیر یقینی معاشی صورتحال اور بین الاقوامی منڈی میں ایندھن کی بڑھتی ہوئی مانگ کے باعث آنے والے مہینوں میں پٹرولیم کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہونے لگا۔اس صورتحال نے پاکستان میں قیمتوں کو متاثر کیا۔سیاحت کے لئے استعمال ٹرانسپورٹ کو سبسڈی دی جائے تو ناصرف سیاحت کا شعبہ ترقی کرے گا بلکہ سیاح بڑی تعداد میں آکر خریداری بھی کر سکیں گے، یوں یہ سبسڈی دوسرے شعبوں میں کئی گنا منافع کی صورت میں واپس مل جائے گی۔ 2023 میں ایندھن کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں۔جس کی بنیادی وجہ غیر یقینی معاشی صورتحال اور بڑھتی ہوئی افراط زر تھی۔اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پاکستان میں تیل اور گیس کے شعبے کو ریگولیٹ کرنے اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تجویز کرنے کا ذمہ دار کون سا ادارہ ہے۔ معاشی بہتری کے لئے پٹرولیم قیمتوں اور کرنسی کی قدر میں استحکام لانے کے لئے حکومت کو ملائیشیا کی طرز پر پالیسی متعارف کرانا ہو گی۔
٭٭٭