فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ
محترم قارئین! جی۔ایم۔سی فائونڈیشن کے زیرانتظام اور قائد ملت اسلامیہ، جانشین شمس المشائخ، پیرطریقت، رہبر شریعت، فخرالمشائخ صاحبزادہ، قاضی محمد فیض رسول حیدر رضوی زید شرفة سجادہ نشین آستانہ عالیہ محدّث اعظم پاکستان کے زیر سرپرستی چھپنے والا یہ آرٹیکل اہل سنت وجماعت اہل اسلام کے اصلاح عقائد واعمال کا داعی ہے۔ اس آرٹیکل کو پڑھنے سے جہاں محبت مصطفیٰۖ کا جذبہ پیدا ہوات ہے وہاں انسانی ہمدردی ودیگر اعمال صالحہ کا شوق بھی جنم لیتا ہے۔ موت کے موضوع پر کچھ لکھنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے۔ علماء کرام رحمتہ اللہ علیھم فرماتے ہیں ”موت عدم محض اور فقط فنا کا نام نہیں ہے بلکہ یہ تو بدن سے روح کے تعلق کے منقطع ہونے، ان کے جدا ہونے اور ان کے درمیان حجاب، حالت کے تبدیل ہونے اور ایک گھر سے دوسرے گھر میں منتقل ہونے کا نام ہے” اس سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ انبیاء کرام علیھم السلام اور اولیاء عظام علیھم الرحمة مر کر مٹی ہوگئے(معاذاللہ) اور کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتے یہ عقیدہ بالکل غلط اور من گھڑت ہے۔
گرنہ بیند بروز شپرہ چشم۔۔۔۔چشمہ آفتاب راچہ گناہ
یعنی اگر چمگادڑ کو دن کے وقت کچھ دکھائی نہیں دیتا تو اس میں سورج کا کیا قصور ہے۔ عقلمنداں را اشارہ کافی است یعنی عقلمندوں کو اشارہ کافی ہے۔ ابوشیخ نے اپنی تفسیر میں اور ابونعیم نے بلال بن سعد سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے اپنے وعظ میں فرمایا: اسے ہمیشگی اور زندگی چاہنے والو! تم فنا کے لئے تخلیق نہیں کئے گئے۔ بلکہ تم ابر اور ہمیشگی کے لئے تخلیق کئے گئے ہو اور تم ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف منتقل ہوگے۔ امام بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ آپۖ نے فرمایا: موت مومن کا تحفہ ہے۔ دیلمی نے مسند الفردوس میں حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنھما سے نقل کیا کہ موت مومن کا پھول ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ رسول اللہۖ نے فرمایا: موت غنیمت ہے، گناہ مصیبت ہے، فقر راحت ہے، غنی ہونا عذاب ہے، عقل اللہ ربّ العزت کی جانب سے حدیہ ہے، ظلم ندامت ہے، اطاعت آنکھوں کی ٹھنڈی ہے، اللہ کے خوف سے رونا آگ سے نجات ہے، ہنسنا بدن کی ہلاکت ہے اور گناہ سے توبہ کرنے والا اس آدمی کی طرح ہے جس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو۔ امام احمد اور سعید بن منصور نے اپنی اپنی سنن میں محمود بن بعید سے نقل کیاہے کہ نبی اکرمۖ نے ارشاد فرمایا: دو چیزوں کو ابن آدم ناپسند کرتا ہے موت کو ناپسند کرتا ہے حالانکہ موت اس کے لئے فتنہ کہنے سے بہتر ہے اور مال کی کمی کو ناپسند کرتا ہے حالانکہ مال کی کمی سے حساب میں کمی ہوگی۔ بیہقی نے شعب الایمان میں زرعہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریمۖ نے ارشاد فرمایا کہ انسان زندگی کو پسند کرتا ہے حالانکہ موت اس کے لئے بہتر ہے اور کثرت مال کو پسند کرتا ہے حالانکہ مال کی کمی اس کے حساب میں کمی کا باعث ہے۔ حضور نبی کریمۖ کے پاس ایک جنازہ گزرا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ راحت پانے والا ہے یا اس سے راحت پائی گئی ہے تو صحابہ کرام علیھم الرضوان نے عرض کیا”مستریح” اور ”مستراح عنہ” سے کیا مراد ہے؟ یعنی راحت پانے والا یا راحت پایا گیا سے کیا مراد ہے؟ تو ارشاد فرمایا: بندہ مئومن کی دنیا کی مشقت اور اس کی تکلیف سے اللہ تعالیٰ کی رحمت کی طرف منتقل ہو کر راحت پاتا ہے اور فاجر آدمی سے شہر کے لوگ، درخت اور جانور نجات حاصل کرتے ہیں۔ ابن ابی شیبہ نے یزید ابن زیاد سے روایت کیا فرماتے ہیں: لوگ ایک جنازہ لے کر حضرت ابوجحیفہ کے پاس سے گزرے تو آپ نے فرمایا: یا تو اس نے راحت پالی یا بندوں نے اس سے راحت پائی۔ ابن مبارک اور طبرانی نے نقل کیا کہ عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرمۖ نے فرمایا کہ دنیا مومن کی قید اور قحط ہے۔ پس جب اس نے دنیا چھوڑی تو قید اور قحط سے راحت پائی۔ عبداللہ بن مبارک نے عبداللہ بن عمرو سے روایت کیاکہ دنیا کافر کی جنت اور مئومن کا قید خانہ ہے۔ بندہ مئومن کی روح جب پرواز کرتی ہے تو اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو قید خان میں تھا اور اسے رہا کردیا گیا تو اب وہ زمین میں خوب سیروتفریح کرتا ہے۔ طبرانی نے ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ۖ نے فرمایا: اے اللہ عزّوجلَّ! جو آدمی یہ جانتا ہے کہ میں تیرا رسول ہوں اسکے لئے موت پسندیدہ فرما۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقائق کو سمجھ کر عمل کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کا خاتمہ ایمان پر فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭