سٹیڈیم آخر خالی کیوں رہتا ہے؟

0
5
حیدر علی
حیدر علی

ٹھیک ہے پاکستان کی کرکٹ ٹیم جیتنے میں تو اپنا نام پیدا نہ کرسکی لیکن ہارنے میں ساری دنیا میں چھوتھے نمبر پر اپنا نمبر کُند کر وا لیا یعنی پاکستان کی وہ بد قسمت ٹیم ہے جس کے خلاف انگلینڈ نے آٹھ سو تئیس رن بنا کر ورلڈ ریکارڈ قائم کردیا، اِس سے قبل تین بدقسمت ٹیمیں انڈیا، آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز تھیں جنہیں یہ منحوس دِن دیکھنا پڑا تھا، پاکستان کی ٹیم کو اننگ ڈیفیٹ کا سامنا کرنا پڑا ، مطلب یہ کہ جو اسکورز پاکستان کی ٹیم دو اننگز میں بناسکی تھی اُس کا دوگنا انگلینڈ کی ٹیم نے نہ صرف ایک اننگ میں بناکر بلّے کو چلتا کردیا بلکہ اُس سے بھی زیادہ مزید 47 بنا لئے۔ پاکستان کے کھلاڑیوں سے یہ پوچھنے کی ضرورت ہے کہ بھائی یہ ٹیسٹ میچ کھیلنے آئے ہو یا گلی ڈنڈا، رات میں کھانے کے بعد کوئی چرس کا کش تو نہیں لگا لیا تھا، تم نے تو وہ کام کردیا جو پاکستان کی تاریخ میں کسی نے نہیں کیا تھا،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پی سی بی سے وابستہ جو کوئی بھی کوچ آیا وہ کوئی کام کاج کرتے ہیں ، بالروں کو گینڈ پھینکنا وغیرہ سکھاتے ہیں یا صرف پی سی بی کے چیئر مین کی مکھن پالش کرتے رہتے ہیں،سالوں سال سے ایسی کوئی خوشخبری سننے میں نہیں آئی کہ پاکستان کی ٹیم دوسرے ملک کی ٹیم کو شکست دے دی ہو، اس شکست در شکست نے پاکستانی ٹیم کے کھلاڑیوں کی سماجی و ذہنی زندگی پر بہت سارے منفی اثرات چھوڑے ہیں، ٹیم کے سابق کپتان بابر اعظم کو گذشتہ ہفتے ایک ٹیکسٹ میسج موصول ہوا ہے جس میں اُن کی گرل فرینڈ نے شکوہ کیا ہے کہ ” میں تم سے شادی کیسے کروں تم تو سنچری کیا نصف سنچری بھی نہیں بناسکتے ہو، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم اب ضعیف المرگ بن گئے ہو” پی سی بی جس کے بارے میں پاکستان کے عوام کی رائے کوئی زیادہ اچھی نہیں ، عام لوگوں کا خیال ہے کہ پی سی بی حلوہ مانڈا تو خود کھا جاتی ہے اور سادہ و معصوم لوگوں کو کڑی دھوپ میں بیٹھا کر سٹیڈیم میں داخل ہونے کی ٹکٹ خریدنے پر مجبور کرتی ہے، پی سی بی کا کہنا ہے کہ اگر کرکٹ سے محبت ہے تو اِس کیلئے کچھ قربانی بھی دو لیکن اِس دفعہ خوش کن بات یہ ہے کہ ملتان کے ٹیسٹ میچ میں جنرل انکلوژر میں داخلہ مفت ہے ، مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کام کاج نہیں کرتے ہیںتو اپنے مع اہل و عیال کے ساتھ مفت کرکٹ کا ٹیسٹ میچ دیکھنے جاسکتے ہیںاور پھر سارے محلے داروں اور رشتہ داروں پر یہ رعب جماسکتے ہیں کہ آپ ٹیسٹ میچ دیکھنے گئے تھے، اُنہیں یہ بتانے کی کوئی ضرورت نہیں کہ داخلہ مفت تھا ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملتان کے خوبصورت شہر میں جسے ماحولیات کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بہترین شہر قرار دیا جاسکتا ہے ، وہاں پاکستان اور انگلینڈ کے مابین ٹیسٹ میچ کے دوران تماشہ بینوں کی تعداد کو اُنگلی میں گنا جاسکتا تھا، آخر کیا وجہ ہے کہ جنرل انکوژر میں داخلہ مفت ہونے کے باوجود بھی لوگ میچ دیکھنے نہیں گئے تھے، کیا وہ خوفزدہ تھے کہ اُن کے چہرے کی رنگت سیاہ ہوجائیگی ویسے کون سا پہلے گورا تھا، کراچی و پنڈی کے لوگ میچ دیکھنے کے بہانے ملتان شہر کی دیدہ وری بھی کر سکتے تھے لیکن اُنہوں نے موقع سے فائدہ نہیں اُٹھایا، ملتان کے باسی بھی خود میچ دیکھنے نہیں گئے تھے، وہاں کے مقامی ٹیلی ویژن پر ایک فین کا انٹرویو لیاجارہا تھا جو لاہور، کراچی یا اسلام آباد سے نہیں بلکہ نیویارک سے میچ دیکھنے کیلئے ملتان آیا تھا، بڑی بات ہے، ٹی وی کے اینکر پرسن جو عموما”ٹی وی کے مالک بھی ہوتے ہیں اُس کرکٹ کے فین کا تعارف کرتے ہوئے کہا کہ ” اِن سے ملئے یہ ہیں محمد افضال دنیا اعظم کے سب
سے بڑے کرکٹ کے فین جنہوں نے ملتان کا ٹیسٹ میچ دیکھنے کیلئے نیویارک سے سات ہزار میل کا سفربذریعہ ہوائی کیا، اینکر پرسن نے اُن سے پوچھا کہ ” افضال صاحب آپ بتائیں کہ آخر کیا محرکات تھے کہ آپ ٹیسٹ میچ دیکھنے کیلئے نیویارک سے ملتان چلے آئے؟” ” دیکھئے جناب ! مجھے بچپن سے ہی کرکٹ کے میچ کھیلنے اور دیکھنے کا بہت شوق ہے، لاہور میں جب بھی میچ ہوتا میں اُسے ضرور دیکھتاحتی کہ مجھے اسکول سے کیوں نہیں بھاگنا پڑتا، اِس دفعہ کیونکہ میچ کے دوران ہی میرے خالہ زاد بھائی کی شادی ہے ، پی ٹی آئی کی جانب سے نکلنے والے مظاہرے میں بھی شرکت کرنا ہے اور لاہور کی لسّی بھی مجھے بہت یاد آتی ہے لہٰذا یہ ساری باتیں مجھے پاکستان آنے پر مجبور کردیا تھا”
”اچھا افضال صاحب یہ بتائیں کہ آپ نیویارک میں کیا کام کاج کرتے ہیں؟”
” سرجی میں وہاں کنسٹرکشن کا کام کرتا ہوں، لوگ وہاں پندرہ ڈالر ، بیس ڈالر گھنٹے کا کماتے ہیں، لیکن
میں پچاس ڈالر گھنٹے سے کم پر کام نہیں کرتا ہوں ”
”واہ بھائی واہ افضال صاحب ! آپ نے تو کمال کردیا، آپ نے شادی وغیرہ کی ہے یا کوئی گرل فرینڈ
وغیرہ ہے” اینکر پرسن نے پوچھا؟”جی ہاں میری منگیتر لاہور میں رہتی ہے ، اور میں اُسے شاپنگ کرانے دبئی لے کر جارہا ہوں”” کیا اُسے بھی کرکٹ کے کھیل سے شوق ہے؟” ” جی ہاں ! وہ بھی اسکول میں کرکٹ کھیلا کرتی تھی ، اور جب وہ ہمارے ساتھ نیویارک جائیگی تو وہاں بھی وہ ہماری ٹیم کے ساتھ کرکٹ کھیلے گی”
”اچھا افضال صاحب آپ یہ بتائیں کہ آپ نیویارک میں بھی کرکٹ وغیرہ کھیلتے ہیں؟ ” اینکر پرسن نے پوچھا ” جی ہاں بروکلین جہاں میں رہتا ہوں وہاں ہماری کرکٹ کی ٹیم ہے ، ویسے نیویارک کے ہر علاقے میں کرکٹ کی ٹیم موجود ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here