کائنات میں ہر شے کے اثرات ہیں۔الفاظ اور افکار کے اثرات ہیں۔تحسین و تمجید سے انسان فرحت و انبساط محسوس کرتا ہے جبکہ ناشائستہ الفاظ سننے سے طبیعت مکدر ہوجاتی ہے ۔یہی معاملہ افکار اور اعمال کا ہے۔مثبت افکار سے اقوام کے اذہان و اعمال کی تشکیل ہوتی ہے۔نیکی و بردباری کا پرچار اقوام میں متوازن اعمال کا پیش خیمہ ہے۔ادبیات کے اثرات حقیقت مطلقہ ہیں۔حافظ شیرازی کی شاعری میں شراب و شباب کے تذکرے کے اپنے اثرات ہیں۔البتہ ان کے عرفان وایقان کی بھی ایک دنیائے حیرت ہے۔شہنشاہ ہند اورنگ زیب مذہبی ذہن کا حکمران تھا۔اس نے حافظ شیرازی کی شاعری کے مطالعہ پر پابندی لگا دی ایک دن اس نے اورنگ زیب کے کمرہ میں دیوان حافظ دیکھا تو والد پر اعتراض کیا کہ لوگوں کو آپ نے دیوان حافظ کے مطالعہ سے منع کررکھا ہے اور خود آپ اس کو پڑھتے ہیں تو جواب دیا کہ ہر شخص دیوان حافظ کا تفہیم کا متحمل نہیں ہوسکتا۔عوام کی فکری سطح پست ہوتی ہے دیوان حافظ عوام کا نہیں خواص کا دیوان ہے۔اصل میں شاعرانہ اصطلاحات وتشبیہات عوام کی فکر سے بالا ہوتی ہیں وہ ان الفاظ کے لفظی معنوں میں لیتے ہیں جب کہ معنوی طلسمات ان کی آنکھوں سے اوجھل ہوتے ہیں۔لیکن دوسری طرف ایسے شاعر ،ادیب ،ناول نگار،افسانہ نویس اور فلسفی بھی ہیں جو آزادی افکار کے نام پر نوجوانوں سے بے حیائی اور فحاشی کی صلاح کرتے ہیں۔یہ لوگ ابلیس کے ایجنٹ ہیں۔پاکستان بھی ایسے شاعرو ادیب ہیں جو جدت اور جدیدیت کے نام پر اخلاقی اقدار کو پارہ پارہ کررہے ہیں تحریر و تقریر کے اعمال پر اثرات ہوتے ہیں۔علامہ اقبال کی شاعری کے اپنے اثرات ہیں۔جوش ملیح آبادی اور فیض احمد فیض کی شاعری کے اپنے اثرات ہیں۔پروین شاکر کی شاعری کا رنگ و آہنگ اور ہے جبکہ فہمیدہ ریاض کی کتاببدن دریدہمیں دریدہ دہنیبھی عیاں ہے۔گویا ہر گلے را رنگ و بوئے دیگراستوالا معاملہ ہے۔ولیم ورڈزورتھ کی شاعری مدحت فطرت ہے ۔شیلے انقلاب کا شاعر ہے۔بائرن آزادی کا نغمہ خواں ہے۔جان کیٹس محبت کا ترجمان ہے۔شاعروں کی ایک کہکشاں ہے۔ہر ایک کا اپنا رنگ وآہنگ اور طرز بیاں ہے۔کہیں فغاں ہے اور کہیں آتش بپاہ ہے۔بقول غالب!
دنیا میں ہیں اور بھی سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
قرآن مجید نے مثبت افکار و اعمال کو باعث نجات اور منفی افکار و اعمال کو باعث عذاب قرار دیا ۔قرآن مجید کی سورہ النور کی آیت نمبر 19 میں ارشاد ربانی ہیبے شک جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلے ان کے لئے دنیاور آخرت میں دردناک عذاب ہیسور النور کی آیت نمبر 21 میں بے حیائی اور برائی کی کار شیطان گردانا گیا۔پاکستان ایک فلاحی اسلامی و جمہوری ریاست ہے۔یہاں کئی ٹی وی چینلز مغربی تہذیب کی بے حیائی اور فحاشی کو ڈراموں میں پھیلا کر نئی نسل کو گمراہ کررہے ہیں۔یہ پیمرا کی اخلاقی و آئینی ذمہ داری ہے کہ ایسے تمام ٹی وی چینلز بند کردیئے جائیں جو برہنگی عام کررہے ہیں۔شاعری ہو یا نثر،مصوری ہو یا مجسمہ سازی عریانی اور بے حیائی کا درس زوال قوام کا پیش خیمہ ہے۔ارسطو کا کہنا ہے کہ ہر ڈرامہ کا انجام اخلاقیات و انسانیت کا پیغام ہو۔شہنائی بجے لیکن ماتم زندگی کا بھی خیال رہے۔زندگی طربیہ اور المیہ ہے۔ایک شام ہم چند دوست بیٹے گپ شپ کررہے تھے۔امام شاعران مزاح گوسید ضمیر جعفری جان محفل تھے۔مزاحیہ شاعری کا تذکرہ ہوا تو انہوں نے نہایت اداس لہجے میں فرمایا کہ مزاح گو شاعر اندر سے دکھی اور باہر سے سکھی ہوتا ہے۔دراصل اس کے قہقہوں میں نوحے ہوتے ہیں اور وہ تلخ دوا میٹھی گولیوں میں کھلاتا ہے۔مقصد اصلاح معاشرہ ہوتا ہے۔ان کی کتابمافی الضمیران کے قول پر صادق ہے۔اردو شاعری میں مزاح نولیسیوں کی خاص تعداد ہے۔چند دن قبل کسی نے واٹس اپ پر ایک مشاعرہ کی ویڈیو بھیجی۔پہلی مرتبہ جناب مبارک صدیقی کے مزاحیہ قطعات سننے کا اتفاق ہوا۔مزاحیہ شاعری اور پھکڑپن میں فرق ہوتا ہے۔مجھے مبارک صدیقی کے قطعات مزاحیہ ہوکے بڑے سنجیدہ لگے۔ یعنی زندگی کے حقائق کو انہوں نے نہایت نستعلیق انداز میں پیش کرکے خوب داد سمیٹی۔ایسی مزاحیہ شاعری کی مثال یوں ہے کہ ہنستے ہنستے آنسو نکل آئییعنی اتنے دلچسپ اشعار تھے کہ بے ساختہ ہنسی اور قہقہوں سے آنکھیں چھلک پڑیں۔یہ حزینہ آنسونہیں بلکہ طربیہ آنسوہوتے ہیں۔مبارک صدیقی کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔وہ طربیہ آنسوکے شاعر ہیں۔ان کے دوقطعات ملاحظہ فرمایئے
وہ جو دل کو قبول ہوتے ہیں
ان کے پتھر بھی پھول ہوتے ہیں
جاکے تھانے مجھے سمجھ آئی
عشق کے کچھ اصول ہوتے ہیں
ایک دوسرے قطعے میں کہتے ہیں
آپ بھی بیگم کی باتوں سے پریشاں ہیں اگر
ایک ہے ترکیب میرے پاس اس جنجال کی
آج جاکے آپ بھی بیگم سے بس اتنا کہیں
آپ جب خاموش ہوں لگتی ہیں سولہ سال کی
مبارک صدیقی مسنحرہ یا بھانڈ نہیں ۔مزاحیہ شاعری میں خوشگوار اورسنجیدہاضافہ ہے۔سید ضمیر جعفری کی مرحوم و مغفور نابغہ روزگار اور شاعر مزاح تھے۔ان کے مزاح میں چاشنی بھی تھی اور روشنی بھی۔وہ فرمایا کرتے تھے میرے قہقہوں کے پیچھے میرے نالے ہیں۔مزاحیہ شاعری میں اگر سنجیدہ پیغام نہ ہوتو وہ محض پھکڑ پن ہے۔ان کے اس بیانیہ کی تصدیق ان کی کتابمافی الضمیرکرتی ہے۔مجھ پر یہ ان کا ادبی احسان ہے کہ جب میرا فارسی مجموعہ کلامحلقہ زنجیرشائع ہوا تو انہوں نے کالم میں تبصرہ کرتے ہوئے مجھے بلبل شیرازکے لقب سے نوازا۔میری شاعری کی کتاب شعلہ کشمیرکی رونمائی کی تقریب میں ضمیر جعفری بنام مقصود جعفریمضمون پڑھا جو میری اردو اور فارسی شاعری کی کتابگنبد افلاق میں شامل ہے ۔اس مضمون میں انہوں نے کمال شفقت سے مجھے پاکستان کا ادبی سفیراور شاعر ہفت زبانکا القابات سے نوازا۔
٭٭٭















