ایک بہادر ماں کے عزم کی داستان!!!

0
95

پانچ جون 1992 ٹنڈو بہاول سندھ کے گاں میں حاضر سروس میجر ارشد جمیل نے پاک فوج کے دستے کے ساتھ چھاپہ مار کر 9 کسانوں کو گاڑیوں میں بٹھایا اور جامشورو کے نزدیک دریائیسندھ کے کنارے لے جا کر قتل کردیا، فوج نے الزام لگایا کہ یہ افراد دہشتگرد تھے۔الزام لگایاکہ یہ افراد دہشتگرد تھے ان کا تعلق بھارت کے ادارے ریسرچ اینڈ اینالائسس ونگ سے تھا۔ لاشیں گاں آئیں تو نہ صرف گاں بلکہ پورے علاقے میں کہرام مچ گیا۔۔ ہر ماں اپنے بیٹے کی لاش پر ماتم کر رہی تھی ان کے بین دل دہلا رہے تھے۔۔۔ خاموشی سے میتیں دفنانے کا مشورہ دیا گیا قاتل طاقتور ہیں، کسانوں کا ان سے کیا مقابلہ،مائی جندو کو رونے کے لیے کہا گیا تو اس نے وحشت ناک نگاہوں سے میتیوں کی طرف دیکھا اور بولی، بس ! مائی جندو ایک ہی بار روئے گی, جب بیٹوں کے قاتل کو پھانسی کے پھندے میں لٹکتا دیکھے گی۔سب جانتے تھے ایسا ممکن نہیں تھا مگر جنازے اٹھے تو مائی جندو نے سر کی چادر کمر سے باندھی سیدھی کھڑی ہوئی بیٹوں کو الوداع کیا،، مسئلہ یہ تھا کہ یہ ٹنڈو بہاول(سندھ)دریائے سندھ کے کنارے پر قتل ہونے والوں کی وڈیو بنانے کے لیے موبائل کیمرہ بھی نہیں آیا تھا۔خبر چلی کہ دشمن کے ایجنٹ مار کر ملک کو بڑے نقصان سے بچا لیا گیا۔ جس نے پڑھا سنا اس نے شکر کیا۔جب سارا ملک شکرانہ ادا کر رہا تھا ، تب مائی جندو نے احتجاجی چیخ ماری۔ اس چیخ نے پرنٹ میڈیا کی سماعتیں چیر کے رکھ دیں،مائی جندو بوڑھی تھی، جسمانی لحاظ سے کمزور مگر وہ 3 مقتولوں کی ماں تھی، اس نے اپنی دو بیٹیوں کو ساتھ لے کر قاتلوں کے خلاف اعلان جنگ کردیا، سوشل میڈیا کی غیر موجودگی میں یہ جنگ آسان نہ تھی مگر نقارے بج چکے تھے، کشتیاں جل چکی تھیں اور واپسی محال تھی۔ اخباروں اور صحافیوں کے ہمراہ مائی جندو نے اس چیخ کو طاقتی مراکز کے سینوں میں گھونپ دیا،پہلی جھڑپ ختم ہوئی اور گرد چھٹی تو معلوم ہوا کہ قتل ہونے والے دہشت گرد نہ تھے بلکہ میجر ارشد جمیل کا ان کے ساتھ زرعی زمین کا جھگڑا تھا، جس کی سزا میں انہیں قتل ہونا پڑا تھا۔24جولائی 1992 کو جنرل آصف نواز نے نوازشریف سے ملاقات کی جس میں یہ معاملہ زیر غور آیا اور جنرل آصف نواز نے میجر ارشد جمیل کا کورٹ مارشل کرنے کا حکم دے دیا،29 اکتوبر کو فیلڈجنرل کورٹ مارشل نے میجر ارشد جمیل کو سزائے موت اور 13 فوجی اہلکاروں کو عمر قید کی سزا سنائی۔ سپہ سالار نے رحم کی اپیل 14 ستمبر 1993 کو مسترد کی، اس کے بعد رحم کی اپیل صدر فاروق لغاری سے کی گئی جو 31جولائی 1995 کو مسترد ہوئی لیکن سزا پر عمل درآمد روک دیا گیا، میجر کے بھائی کی اپیل پر سپریم کورٹ کے جج سعیدالزمان صدیقی نے حکم امتناع جاری کیا اور سزا روک دی۔ سزائیموت پر عمل نہ ہونے پر 11 ستمبر 1996 مائی جندو پھر میدان میں نکلی۔ اسکی 2 بیٹیوں نے حیدرآبادپریس کلب کے سامنے تیل چھڑک کر خود کو آگ لگا کر جان دے دی۔ ملک میں ایک بار پھر کہرام مچ گیا، بالآخر 28 اکتوبر 1996کو طاقت کی دیواریں مائی جندو کے مسلسل دھکوں کے سامنے ڈھیر ہوگئیں۔ حیدر آباد سنٹرل جیل میں مائی جندو کو لایا گیا، سامنے تختہ دار پر اسںکے گائوں کے 9 بیٹوں کا قاتل میجر ارشد کھڑا تھا. تختہ دار کھینچا گیا۔ قاتل میجر ارشد جمیل کا جسم جھول گیا، سامنے کھڑی مائی جندو کی بوڑھی مگر زور آور آنکھ سے ایک اشک نکلا، اس کے رخسار کی جھریوں میں تحلیل ہو گیا.۔
مائی جندو تمہیں دنیا کے تمام کمزور اور مظلوم سلام کرتے ہیں !
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here