پریڈوں… میلوں اور ٹھیلوں کا سماں !!!

0
68
رمضان رانا
رمضان رانا

امریکہ میں میلے آبادکاروں کی پریڈیں اور میلے اپنے اپنے ملکوں کے کلچر۔ رسم و رواج لسان کی شناخت کی علامت کہلاتے ہیں کہ جس میں دنیا بھر کے امریکہ میں آکر آباد ہونے والے آباد کار اپنی نئی نسل کے اولادوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ انہوں نے کب کیوں اور کیسے اپنے آبائو اجداد کے ملکوں کو متحرک وطن کیا تھا۔ جس کی وجہ سے یورپ اور امریکہ میں مختلف ممالک کے آباد کار آئے دن مختلف وقتوں میں پریڈیں اور میلے اور ٹھیلے منعقد کرتے نظر آتے ہیں۔ جس میں مقامی ریاستی اور شہری حکومتوں کے اہلکار بھی شریک ہوتے ہیں۔ تاہم امریکہ میں پاکستان ڈے پریڈ اور میلے منعقد ہوتے ہیں جو ایک ہی دن میں ایک دوسرے کے مدمقابل پریڈیں اور میلے منعقد کرتے ہیں جس سے پاکستان میں عوامی تقسیم کا عنصر بیرون ملک میں بھی نظر آتا ہے۔ جو کسی بھی کمیونٹی کے لیے لمحہ فکریہ ہے ایک ہی دن میں ایک ہی ریاست یا شہر یا اردگرد کی ریاستوں میں پاکستان کے نام پر مختلف جگہوں پر منعقد ہو رہی ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ پریڈیں کمیونٹی کے اتحاد کی علامت ہوتی ہے۔ جیسا کہ بروکلین نیویارک میں ایک ہی کمیونٹی پاکستانی امریکن کے دو میلے یا ایک ہی دن کمیونٹی میں دو میلے یا نیویارک اور نیوجرسی ریاست میں دو الگ الگ پریڈوں کا انعقاد ہو رہا ہے۔ جو کمیونٹی کے اتحاد کی پارہ پارہ کرنے کے مترادف ہے جس کا سدباب اب مشکل ہوچکا ہے کہ کمیونٹی کی تقسیم در تقسیم کے بعد اتحاد ایک خواب بن چکا ہے۔ بہرکیف پاکستان ڈے پریڈ یا میلے میں جب پاکستانی امریکن کمیونٹی کی تعداد پچاس ہزار تھی تو ہزاروں کی تعداد لوگ شریک ہوا کرتے تھے آج جب نیویارک اور نیوجرسی کنکٹی کٹ مین پانچ لاکھ سے زیادہ پاکستانی امریکن آباد ہیں کہ پریڈوں اور میلوں میں سینکڑوں کی تعداد شرکاء کی رہ گئی ہے جو پاکستانی امریکن کے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ وہ کیا وجوہات اس کے پریڈوں اور میلوں میں شرکاء کی تعداد کیوں کم رہ گئی ہے۔ جس کی وجہ سے کمیونٹی پر کسی قسم کے برے دنوں میں اتحاد کی بجائے نفاق نظر آتا ہے۔ بہرحال پریڈ اور میلہ اتحاد کی علامت ہوتا ہے جس سے کمیونٹی کو متحد کرکے کسی بھی ملک کی خدمت کی جاتی ہے چاہے وہ سیاسی، معاشی اور سماجی حالات کیوں نہ ہوں خاص طور پر موجودہ دور بربریت میں کمیونٹی کا اتحاد لازم وملزوم ہے جب امریکہ میں امیگرینٹس کے نام پر رنگداروں پر ایک ایسی تلوار لٹک رہی ہے جس کا مقابلہ صرف اور صرف اتحاد سے کیا جاسکتا ہے جو پاکستانی امریکن کمیونٹی میں دور دور تک نظر نہیں آرہا ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ امیگرینٹس کے نام پر امریکی شہریوں اور مستقل رہائشیوں کو دیس نکالا دیا جارہا ہے جن کو اتحاد کے علاوہ کوئی نہیں بچا سکتا ہے کہ وہ عدالتوں میں متحد ہو کر کس طرح مقابلہ کر پائیں۔ ایسے موقع پر لازم ہے کہ پریڈوں اور میلوں کے نام پر کمیونٹی کو تقسیم نہ کیا جائے۔ پریڈوں اور میلوں کے ٹھیکیداروں کو بھی اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنا پڑے گا۔ کہ وہ خدمت کے قابل نہیں ہیں تو دست بردار ہوجائیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here