برسلز میں منعقدہ تقریب کے دوران فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے کھلے الفاظ میں سیاسی مصالحت کو ملک کے استحکام کے لیے ناگزیر قرار دیا ہے۔ ان کے خطاب نے کئی زاویوں سے موجودہ حالات پر روشنی ڈالی اور ایک ایسی راہ دکھائی جو پاکستان کے سیاسی، معاشی اور سماجی بحرانوں سے نکلنے کے لیے امید کی کرن بن سکتی ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ سیاسی مصالحت سچے دل سے معافی مانگنے سے ممکن ہے محض ایک جملہ نہیں بلکہ قومی سیاست کے منتشر دھاروں کو یکجا کرنے کے لیے ایک رہنما اصول ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں بارہا ایسا موقع آیا کہ اگر سیاسی قیادت انا اور ضد کی بجائے درگزر اور مفاہمت کا راستہ اپناتی تو ہم بہت سے بحرانوں سے بچ سکتے تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ ملک کو اس وقت سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران نے جکڑ رکھا ہے۔ سرمایہ کار غیر یقینی کیفیت کا شکار ہیں، عوام مہنگائی اور بے روزگاری کی دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں اور نظام پر عام آدمی کا اعتماد تقریبا ختم ہو چکا ہے۔ ایسے میں اگر سب سے بڑی ریاستی قوت کا نمائندہ قومی سطح پر مصالحت اور معافی کی ضرورت پر زور دے تو اسے نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے تخلیقِ آدم کا قرآنی حوالہ دیتے ہوئے معاملے کی روحانی اور اخلاقی بنیاد بھی واضح کی۔ ان کا یہ کہنا کہ معافی مانگنے والے فرشتے بن گئے اور نہ مانگنے والا شیطان ٹھہرا، ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ انفرادی ہو یا اجتماعی سطح، ضد اور انانیت ہمیشہ تباہی لاتی ہے جبکہ عاجزی اور معافی ترقی اور بھلائی کا راستہ ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ہماری سیاست میں معافی کو کمزوری اور مفاہمت کو سودے بازی سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے وجود کو برداشت کرنے کے بجائے مٹا دینے کی خواہش رکھتی ہیں۔ یہ رویہ جمہوری استحکام کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ قومی یکجہتی کے بغیر نہ سیاسی ڈھانچہ مستحکم ہو سکتا ہے اور نہ ہی معیشت ترقی کی طرف بڑھ سکتی ہے۔ فیلڈ مارشل نے بالکل درست کہا کہ افواہیں پھیلانے والے حکومت اور مقتدرہ دونوں کے مخالف ہیں۔ اس وقت سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ افواہوں اور پروپیگنڈے کے اس ماحول کو ختم کیا جائے تاکہ سیاست دان اور ریاستی ادارے اعتماد کی فضا میں مل کر آگے بڑھ سکیں۔ پاکستانی عوام طویل عرصے سے یہ دیکھ رہے ہیں کہ سیاسی جماعتیں اقتدار کی جنگ میں مصروف ہیں جبکہ عوامی مسائل پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ تعلیم، صحت، روزگار، توانائی، زراعت اور صنعت جیسے بنیادی شعبے مسلسل نظرانداز ہوتے جا رہے ہیں۔ جب سیاست دان عوامی ایجنڈے پر توجہ دینے کی بجائے ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی میں الجھ جائیں تو نتیجہ وہی نکلتا ہے جو آج ہمارے سامنے ہے کہ مہنگائی کا طوفان، بے یقینی کی فضا اور قومی مایوسی۔ ایسے میں اگر سب جماعتیں بیٹھ کر قومی ایجنڈے پر اتفاق کر لیں تو یہی حقیقی مصالحت ہوگی۔یہ امر بھی قابلِ تحسین ہے کہ فیلڈ مارشل نے یہ واضح کر دیا کہ انہیں کسی عہدے کی خواہش نہیں۔ اس بیان نے ایک بار پھر اس بات پر زور دیا کہ ملکی قیادت کا اصل ہدف ذاتی اقتدار نہیں بلکہ قومی خدمت ہونا چاہیے۔ اس موقع پر یہ کہنا ضروری ہے کہ پاکستان کو اس وقت قومی سطح پر ایک بڑے چارٹر آف ری کنسلی ایشن کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے ماضی کے رویوں کو دیکھیں، اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں اور مستقبل کے لیے ایک ایسا لائحہ عمل طے کریں جس میں عوامی فلاح سب سے اوپر ہو۔ یہ درست ہے کہ اختلافات جمہوریت کا حصہ ہوتے ہیں لیکن ان اختلافات کو دشمنی اور تصادم میں بدل دینا کسی طرح بھی قوم کے مفاد میں نہیں۔ اگر سیاسی رہنما سچے دل سے معافی اور مفاہمت کی طرف قدم بڑھائیں تو اس کے دور رس نتائج نکل سکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ ہوگا بلکہ معیشت بھی اعتماد کی فضا میں ترقی کرنے لگے گی۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی تاریخ گواہ ہے کہ وہاں سیاسی قوتیں اختلافات کے باوجود قومی ایشوز پر یکجا ہو کر فیصلے کرتی ہیں۔ یہی رویہ پاکستان میں بھی اپنانے کی ضرورت ہے۔فیلڈ مارشل عاصم منیر کی گفتگو کو خوش آئند اس لیے بھی قرار دیا جانا چاہیے کہ انہوں نے حالات کو مزید بگاڑنے کے بجائے سنوارنے کی بات کی۔ یہ وہ پیغام ہے جس پر عمل پیرا ہو کر پاکستان بحرانوں سے نکل سکتا ہے۔ سیاست دانوں کو چاہیے کہ وہ ذاتی مفادات کو ایک طرف رکھیں اور قومی مفاد کو مقدم جانیں۔ اگر وہ ایک دوسرے کو معاف کر کے آگے بڑھیں تو یہ قوم بھی انہیں عزت دے گی اور تاریخ بھی ان کے نام کو مثبت انداز میں یاد کرے گی۔ اب وقت آگیا ہے کہ سیاسی رہنما اپنی روش بدلیں اور اس ملک کے کروڑوں عوام کے لیے وہ راستہ اختیار کریں جو قومی یکجہتی اور جمہوری استحکام کی ضمانت بن سکے۔ فیلڈ مارشل کی بات کو نظرانداز کرنے کا مطلب ایک اور موقع ضائع کرنا ہوگا۔ اور پاکستان مزید مواقع ضائع کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یہ سطور اس امید پر رقم کی جارہی ہیں کہ ہمارے سیاسی رہنما بالاخر یہ سمجھ لیں گے کہ اصل کامیابی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں نہیں بلکہ مل کر پاکستان کو سنوارنے میں ہے۔ سچی مصالحت ہی وہ راستہ ہے جو ہمیں بحرانوں سے نکال کر استحکام، خوشحالی اور ترقی کی طرف لے جا سکتا ہے۔
٭٭٭












