انسانیت کی خدمت الفاظ سے نہیں، اعمال سے پہچانی جاتی ہے کچھ لوگ دنیا میں محض جینے آتے ہیں، مگر کچھ وہ ہوتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی خدمت کے لیے چن لیا ہوتا ہے۔ کشمیر اور فن ریلیف تنظیم جسے کورٹ کے مخفف سے یاد کیا جاتا ہے کے روح رواں چوہدری اختر انہی باآشوب مگر روشن مسافروں میں سے ایک ہیں جن کی زندگی کا محور اور مقصد دکھی انسانیت کی خدمت ہے ،دوہزار پانچ میں باغ، کشمیر کا تباہ کن زلزلہ ہزاروں بچوں کو یتیم کر گیا ،یہ معصوم جانیں نہ صرف اپنے سہاروں سے محروم ہوئیں بلکہ زندگی کی بے رحم موجوں کے سامنے بے بس کھڑی رہ گئیں، ایسے میں میر پور سے برطانیہ کو ہجرت کرنے والے والدین کے ہاں پیدا ہونے والے چوہدری اختر نے ان بچوں کو صرف سہارا ہی نہیں دیا، بلکہ باپ بن کر بھی دکھایا۔ دنیا شاید عبدالستار ایدھی کو بھول نہ پائے، مگر کشمیر کا یہ بیٹا اپنے خطے کے بچوں کے لیے وہی کردار ادا کر رہا ہے ہر وہ بچہ جو کسی پالنے میں، کسی گلی میں یا کسی کونے میں بے نام و نشان مل جائے، اس کی زندگی کا پہلا حوالہ چوہدری اختر کا اپنا نام بن جاتا ہے۔ وہ نام جس کے ساتھ محبت، کفالت اور ذمہ داری شامل ہوتی ہے۔ گزشتہ ہفتے امریکہ میں انہی یتیم بچوں کی کفالت کے لیے بڑی سطح پر فنڈ ریزنگ کی گئی۔ ورجینیا میں ہونے والی تقریب میں سات لاکھ ڈالر سے زائد کے پلیجز ہوئے، جس میں پاکستان کے سفیر نے بھی شرکت کر کے اس مشن کو سراہا۔ حکومتِ پاکستان پہلے ہی چوہدری اختر کی خدمات کو ستارہ امتیاز کے ذریعے تسلیم کر چکی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ اعزاز بھی ان کی خدمات کے سامنے بہت چھوٹا محسوس ہوا راقم خود فورڈ، نیو جرسی میں ہونے والی ایک شاندار تقریب میں شریک ہوا۔ اگر شریک نہ ہوتا تو یقینا بہت کچھ مس کر دیتا کئی بار آنکھیں بھیگیں، دل بھاری ہوا، اور انسانیت اپنی خوبصورت ترین شکل میں جھلکتی دکھائی دی۔ تقریب کی نظامت اس شان سے اس نابغہ شخص حبیب ملک نے کی جو سکاٹ لینڈ سے آئے تھے اور وہیں کا روایتی لباس پہنے ، شستہ اردو، حاضرین کو جوڑے رکھنے کا ہنر، اور جذبات کو لفظوں میں پرونے کا ایسا سلیقہ کہ محفل میں بیٹھا ہر شخص بار بار ان کے جملوں پر داد دینے پر مجبور ہو جاتا ان کی گفتگو اور دل موہ لینے والے الفاظ نے ان دونوں تقریبات کو مل کر ایک ملین ڈالر سے زائد فنڈز جمع کرنے میں مدد دی تقریب کے دوران متعدد مقررین نے کورٹ کی ضرورت اور اہمیت پر بات کی، مگر چوہدری اختر کی گفتگو دل کو سب سے زیادہ چھو گئی۔ ان کا ایک جملہ ہر اک کے دل میں نقش چھوڑ گیا کہ اگر یہ بچے آپ کے اپنے ہوتے تو آپ ان کی پرورش کیسے کرتے؟ بس میں ان سب کو اسی نظر سے دیکھتا ہوں اپنے بچوں کی طرح اور وہ واقعی کرتے بھی یہی ہیں ان کی اپنی بھی ایک بیٹی ہے، مگر وہ کبھی فرق نہیں کرتے۔ لوگ اپنی غلطیوں سے پیدا ہونے والے بے نام بچوں کو ادارے کے باہر چھوڑ جاتے ہیں، اور چوہدری اختر ان بے ناموں کو اپنا نام دیتے ہیں ان کی پرورش اپنی بیٹی کی طرح کرتے ہیں جس کی زندہ مثالیں ان فوٹیجز میں نظر آئیں جو کورٹ کے مختلف اداروں کے بچوں کی زبانی چلائے گئے۔ ایک اور دلچسپ اور سوچنے پر مجبور کر دینے والا لمحہ وہ تھا جب تقریب میں ان معروف شخصیات کی ویڈیوز دکھائی گئیں جنہوں نے کورٹ کے اداروں کا دورہ کیا ان میں انضمام الحق، اور دیگر کھلاڑی، کاروباری شخصیات، سابق وزرائے اعظم راجہ پرویز عباسی اور حتی کہ چیف آف ڈیفینس فورسز فیلڈ مارشل عاصم منیر تک شامل تھے حاضرین نے یہ ویڈیوز خاموشی سے دیکھیں۔ مگر جیسے ہی ایک سابق وزیراعظم جو فنڈ ریزنگ میں اشیا کے سب سے بڑے فنڈ ریزر ہیں کی جھلک اسکرین پر ابھری تو ہال تالیوں کی گونج سے جگمگا اٹھا۔ شاید یہ لمحہ سیاسی تھا، شاید جذباتی، مگر اس نے دکھایا کہ انسان کی پہچان اس کے عہدے سے نہیں، اس کے اثر سے ہوتی ہے انسانیت کی خدمت سے ہوتی ہے اللہ اپنی مخلوق سے محبت کرنے والے کو ایسے ہی نوازتا ہے کہ جیسے اقبال کہتے ہیں کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں مخلوق خدا کی خدمت ہی اصل سیاست ہے، خدمت ہی اصل عبادت ہے، اور خدمت ہی اصل انسانیت ہے۔ اور چوہدری اختر اسی خدمت کا نام ہیں۔ اللہ ان کے مشن کو سلامت رکھے، اور ہمیں بھی وہ نظر عطا کرے جس سے ہم دوسروں کا دکھ اپنا دکھ سمجھ سکیں کیونکہ توفیق اللہ ہی دیتا یہ چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ اس راقم کے بھی زاد راہ کے طور پر، اللہ سبحان و تعالیٰ قبول فرمائے۔
٭٭٭

















