صدرِ ترکیہ رجب طیب اردوان نے پاک بحریہ کے ملجم کلاس کے دوسرے جہاز پی این ایس خیبر کی کمشننگ کی تقریب سے خطاب میںکہا ہے کہ پاکستان اور ترکیہ کے برادرانہ تعلقات مثالی ہیں اور مستقبل میں دفاعی پیداوار کے شعبے میں مزید قریبی تعاون کی ضرورت ہے۔ ترکیہ کے صدر یہ الفاظ محض سفارتی جملہ نہیں بلکہ دنوں ممالک کے عوام کی دل کی آواز اور ایک ایسی زمینی حقیقت کا اعتراف ہے جو کئی دہائیوں پر محیط اعتماد، اشتراک اور مشترکہ جدوجہد سے تشکیل پاتی رہی ہے۔ پاکستان اور ترکیہ کے تعلقات رسمی سفارت کاری سے کہیں آگے بڑھ کر عوامی سطح پر جذباتی وابستگی، ریاستی سطح پر اسٹریٹجک ہم آہنگی اور عالمی سطح پر مشترکہ موقف کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔پاکستان اور ترکیہ کے تعلقات کی بنیاد کسی وقتی مفاد یا جغرافیائی مجبوری پر نہیں بلکہ ایک گہرے تاریخی، تہذیبی اور روحانی رشتے پر قائم ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے خلافتِ عثمانیہ کے تحفظ کے لیے تحریکیں چلائیں، مالی امداد دی اور سیاسی حمایت فراہم کی۔ یہی وہ پس منظر تھا جس کے باعث قیامِ پاکستان کے بعد ترکیہ ان اولین ممالک میں شامل تھا جنہوں نے پاکستان کو دل سے تسلیم کیا۔ آج بھی ترکیہ میں پاکستان کے لیے عوامی سطح پر غیر معمولی خیرسگالی پائی جاتی ہے، جو دوطرفہ تعلقات کو ایک منفرد اخلاقی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان سیاسی تعلقات مستقل مزاجی اور اعتماد کی مثال ہیں۔ چاہے مسئلہ کشمیر ہو یا فلسطین، اسلاموفوبیا ہو یا مسلم دنیا کو درپیش اجتماعی چیلنجز پاکستان اور ترکیہ نے ہمیشہ عالمی فورمز پر ایک دوسرے کے موقف کی حمایت کی ہے۔ اقوامِ متحدہ، او آئی سی، اور دیگر بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر دونوں ممالک کی آواز اکثر ایک ہی سمت میں سنائی دیتی ہے۔ یہی سیاسی ہم آہنگی ان تعلقات کو وقتی حکومتوں کے بجائے ریاستی پالیسی کی سطح پر مستحکم کرتی ہے۔صدر اردوان کی جانب سے دفاعی پیداوار میں مزید تعاون پر زور دراصل موجودہ عسکری شراکت داری کے تسلسل اور توسیع کا اعلان ہے۔ پاکستان اور ترکیہ کے درمیان عسکری تعاون صرف مشترکہ مشقوں یا تربیت تک محدود نہیں رہا بلکہ اب مشترکہ دفاعی پیداوار ایک مضبوط حقیقت بن چکی ہے۔ ملجم منصوبہ، جس کے تحت پاکستان نیوی کے جدید جنگی جہاز ترکیہ کے تعاون سے تیار ہو رہے ہیں، اس بات کی عملی مثال ہیں کہ دونوں ممالک محض خریدار اور فروخت کنندہ نہیں بلکہ شراکت دار ہیں۔ اس اشتراک سے پاکستان کی دفاعی خودکفالت میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ ترکیہ کو ایک قابلِ اعتماد اسٹریٹجک اتحادی میسر آ رہا ہے۔ اگرچہ سیاسی اور عسکری تعلقات مضبوط ہیں، تاہم معاشی میدان میں ابھی وہ وسعت نظر نہیں آتی جس کی دونوں ممالک میں صلاحیت موجود ہے۔ اس وقت پاکستان اور ترکیہ کے درمیان دوطرفہ تجارت کا حجم تقریبا 1 سے 1.2 ارب ڈالر کے درمیان ہے، جو دونوں معیشتوں کے حجم اور ممکنات کے مقابلے میں خاصا کم ہے۔دونوں حکومتیں تجارت کو 5 ارب ڈالر تک لے جانے کے ہدف کا اظہار کر چکی ہیں، مگر اس کے لیے آزاد تجارتی معاہدے (FTA)، کسٹم سہولتوں، بینکنگ چینلز اور سرمایہ کاری کے تحفظ جیسے عملی اقدامات ناگزیر ہیں۔ ٹیکسٹائل، انجینئرنگ، تعمیرات، توانائی، دفاعی صنعت اور زراعت وہ شعبے ہیں جہاں فوری اور دیرپا تعاون ممکن ہے۔ترکیہ کی کمپنیاں پاکستان میں انفراسٹرکچر، میونسپل سروسز، توانائی اور تعمیراتی شعبوں میں پہلے ہی کام کر رہی ہیں۔ میٹرو بس منصوبے، شہری ترقی اور پاور سیکٹر میں ترکیہ کا کردار قابلِ ذکر ہے۔ مستقبل میں خصوصی اقتصادی زونز، صنعتی شراکت داری اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کے ذریعے اس تعاون کو مزید وسعت دی جا سکتی ہے، جس سے پاکستان میں روزگار اور پیداواری صلاحیت بڑھے گی۔ پاکستان اور ترکیہ کے تعلقات کی سب سے بڑی طاقت عوامی سطح پر موجود ہے۔ ترک ڈراموں کی پاکستان میں مقبولیت، تعلیمی تبادلے، اسکالرشپس، سیاحت اور میڈیا تعاون نے دونوں معاشروں کو ایک دوسرے کے قریب کیا ہے۔ یہ نرم طاقت وہ عنصر ہے جو سیاسی اتار چڑھاو کے باوجود تعلقات کو مضبوط رکھتی ہے۔عالمی سطح پر پاکستان اور ترکیہ خود کو صرف علاقائی طاقتیں نہیں بلکہ ذمہ دار ریاستیں تصور کرتے ہیں۔ دونوں ممالک امن، مکالمے اور کثیرالجہتی نظام کے حامی ہیں۔ افغانستان، مشرقِ وسطی، یوکرین جنگ اور مسلم دنیا کو درپیش چیلنجز پر دونوں کا نقطہ نظر طاقت کے بجائے سیاسی حل، انسانی ہمدردی اور سفارت کاری پر مبنی ہے۔ یہی سوچ عالمی امن کے لیے ان تعلقات کو اہم بناتی ہے۔پاکستان اور ترکیہ کے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے چند ٹھوس اقدامات ناگزیر ہیں۔اول، آزاد تجارتی معاہدے کو ترجیحی بنیادوں پر حتمی شکل دی جائے۔دوم، دفاعی پیداوار میں مشترکہ تحقیق و ترقی کو فروغ دیا جائے تاکہ یہ تعاون محض اسمبلنگ نہیں بلکہ ٹیکنالوجی کی منتقلی تک جائے۔سوم، نجی شعبے کے رابطوں کو بڑھایا جائے، بزنس کونسلز اور تجارتی وفود کے تبادلوں کو باقاعدہ بنایا جائے۔چہارم، تعلیمی اور ثقافتی تعاون کو ادارہ جاتی شکل دی جائے تاکہ نئی نسلیں اس رشتے کی وارث بن سکیں۔ صدر رجب طیب اردوان کا بیان دراصل مستقبل کی سمت کا تعین ہے۔ پاکستان اور ترکیہ کے تعلقات اگر دفاع، معیشت، سفارت اور ثقافت میں اسی توازن کے ساتھ آگے بڑھتے رہے تو یہ تعلق محض دو ملکوں کا نہیں بلکہ ایک مثالی اسٹریٹجک شراکت بن سکتا ہے، جو نہ صرف دونوں قوموں بلکہ پورے خطے اور عالمی امن کے لیے سودمند ثابت ہو گا۔
٭٭٭















