ایک اہم میٹنگ کے سلسلے میں کرسمس کے موقع پر راقم الحروف کو یورپین ممالک آسٹریا، اٹلی اور ترکیہ جانا پڑا ہے جس میں ویانا اسٹریا سب سے پہلے جانا ہوا ہے یہاں کے بعد روم اور استنبول جانا ہوگا جو دو ہفتے تک محیط ہے۔ 20دسمبر کو جب ویانا پہنچے تو نیویارک سے وریانہ براستہ فرینکفرٹ طویل سفر طے کرنا پڑا جس کی تھکاوٹ کی دوری کے بعد کل 21 دسمبر کو ویانا دیکھنے کا موقع ملا کہ جس میں ویانا کا صاف وستھرا شہر پرانی عمارتیں، کھلی سڑکیں ٹریفک سے پاک سفری سہولتیں جس میں خصوصاً بجلی کو ٹرا میں بھی شامل ہیں جس سے مجھے اپنا آبائی شہر کراچی یاد آگیا کہ جب کراچی میں مختلف پرانے علاقوں میں ٹرا میں چلا کرنی تھیں جس میں بھاگ بھاگ اترنے اور چڑھتے سفر کیا کرتے تھے جس کو ستر کی دہائی میں ختم کردیا گیا جبکہ دنیا کے مشہور ترین شہروں ویانا اور سان فرانسسکو میں آج بھی ٹراموں کا سفر جاری ہے جو ایک دُکھ کی بات ہے کہ پاکستان میں بلاجواز بعض ماضی کے سفری سہولتوں کو ختم کرکے دھواں دار گاڑیوں کا سلسلہ چل نکلا ہے کہ جس نے عوام کو آلودگی سے بستر مرگ پر لٹا دیا ہے تاہم ویانا میں آجکل کرسمس کے موقع پر ایک کرسمس مارکیٹ دیکھنے کا موقع ملا کہ یہاں بڑے ہی خوبصورت کرسمس اسٹالز سجے ہوئے ہیں یہاں سے دنیا بھر کے سیاح کرسمس کے تحفے تحائف خرید رہے تھے، ہر طرف رونق لگی ہوئی تھی، گلی کوچوں میں گاڑیوں کے علاوہ ٹراموں اور گھوڑے گاڑیوں کا بھی سفر جاری تھا، لوگ پرانی عالیشاں عمارتوں، محلوں اور چرچوں کی فن تعمیراتی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ویانا میں سفری سہولتوں میں بطور ٹیکسی اور اوپر دنیا کی قیمتی گاڑی مرسیڈیز نظر آئی کہ جوکہ ٹیکسی اور اوپر کے لئے استعمال ہو رہی ہے تو ہمیں پاکستان یاد آگیا کہ یہاں یہ گاڑی امرء کلاس استعمال کرتی ہے جو ویانا میں سفری سہولتوں کے لئے استعمال ہو رہی ہے ویسے بھی یہ مریسڈیز ٹیکسی کا معاملہ نہیں ہے پاکستان یا پھر تیسری دنیا میں امریکی فاسٹ فوڈ اور جائے کافی وغیرہ کے ریسٹورنٹس بھی بڑے پاپولر میں جس میں کنٹکی فیک ڈانس، فرائیڈ چکن، برگر کنگ،پیزاہٹ، ڈنکن ڈونٹس وغیرہ کھانے پینے کی اشیائے بھی اعلیٰ کلاس ہوچکا ہے کہ برعکس یہ تمام اسٹورز اور ریسٹورنٹس امریکہ میں عام آدمی یا پھر جلدی میں کھانے پینے کے استعمال ہوتے ہیں جن کو اسی لیے فاسٹ فوڈ کا نام دیا گیا ہے ویانا میں سفید گھوڑوں کا میلہ بھی قابل دید ہے کہ یہاں سفید رنگ کے گھوڑوں کے کرتب دیکھائے جاتے ہیں جو واقعی ہی ایک میلہ نما سماں ہوتا ہے جس سے سیاح بہت لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ویانا کی عورتوں سے یہ بھی پتہ چلا کہ جنگ عظیم دوم کا آغازآسٹریا کے تنازعے سے ہوا تھا جس کو بچانے کے لئے آسٹریا حکومت نے ہٹلر جرمن کے سامنے فوری ہتھیار ڈال دیئے تھے کہ تاکہ شہر کی قدیم خوبصورت عمارتیں اور چائے مقامات جنگ کی نظر نہ ہوجائیں یہی وجوہات ہیں آسٹریا کو دیکھ کر شاید دنیا کی نوآبادبائی کی طاقت فرانس نے بھی بنا جنگ فرانس کو جرمن کے حوالے کردیا تھا تاکہ دنیا کا خوبصورت شہر پیرس بچ جائے ورنہ انقلاب فرانس جس سے پوری دنیا میں آزادی اور جمہوریت کا سلسلہ چلا ہے جو انقلاب روس اور انقلاب چین کا باعث بنا تھا جس سے دنیا کی بدترین بادشاہتوں آمروں، سرمایہ داروں اجارہ داروں اور جاگیرداروں سے نجات مل تھی اس کو حکمران ڈیگال اپنے ملک کو بچانے کی خاطر جلا وطن ہوگیا تاکہ پرائی جنگ کی آگ میں نہ چل جائے بہرحال ویانا ایک خوبصورت شہر ہے یہاں اقوام متحدہ کے بھی دفاتر ہیں جس کا ملک آسٹریا ایک نمبر جانبدار ہے جو کسی نامور وغیرہ کا ممبر نہیں ہے جس کے روس کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں۔ آسٹریا کی آبادی میں آدمی کے قریب امیگرنٹس آباد ہیںجو باہر سے آکر آباد ہوئے ہیں ویانا بھی جنیوا اور نیروبی کے بعد سب سے بڑا اقوام متحدہ کا جائے مقام ہے یہاں اقوام متحدہ اپنے ادارے چلا رہی ہے، میرا اگلا سفر روم اور ترکی کا ہوگا جس پر بھی قلم کشائی کی جائے گی۔
٭٭٭٭٭

![2021-04-23 18_32_09-InPage - [EDITORIAL-1-16] رمضان رانا](https://weeklynewspakistan.com/wp-content/uploads/2021/04/2021-04-23-18_32_09-InPage-EDITORIAL-1-16.png)










