میری حیرانگی کی کوئی انتہا نہ رہی جب میں نے وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں لنگر خانہ کی افتتاحی تقریب کی رنگین تصویر اخبار میں دیکھی۔ وہاں موجود افرد میں نہ مجھے کوئی غریب دیار ، نہ کوئی محتاج توجہ صاحب اقتدار اور نہ کوئی ضرورت مندِ مفت لنگر نظر آیا، بلکہ سب کے سب سوٹ اور ٹائی پہنے کھانے کی میز پر کھانے کے سامنے براجمان تھے، ماسوائے وزیراعظم عمران خان کے جنہوں نے چوتھی شادی شلوار و قمیض سے کر رکھی ہے ، چست و چالاک اور انتہائی خوشگوار موڈ میں نظر آرہے تھے ۔ معلوم ہورہا تھا کہ اقوام متحدہ میں تقریر کا بھوت اب تک اُن کے اعصاب سے نہیں اُترا ہے۔ سبھو ںکی نظر میز پر رکھے ہوے کھانے پر جو حقیقی معنوں میں غریب و غرباءیا ضرورتمندوں میں تقسیم ہونا تھا ، اِس طرح گڑی ہوئی تھی ، جیسے وہ بس وزیراعظم کی تقریر کے ختم ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ تقریر ختم ہو، اور وہ ٹوٹ پڑیں ۔ وہ تو خدا کا شکر ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے افتتاحی تقریب میں فاتحہ، نیاز ، اعتکاف یا استخارہ وغیرہ نہیں کیا، ورنہ بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے فرانس سے جنگی طیارہ رافیل ملنے پر اُس کے اوپر ” شستر پوجا“ کرکے اُس کی افتتاح کی۔ یہ شو بازی اِس بات کی بھی دلیل تھی کہ بھارت ایک ہندو سٹیٹ بن گیا ہے۔ بہر کیف انشااﷲ پاکستانی پائلٹ کے نرغے میں آنے والا یہ بھارتی طیارہ دوسرے میراج کی طرح سب سے پہلے راکھ کا ڈھیربن جائے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لنگر کی تقسیم عزت مندانہ طریقے سے کس طرح ہو، آیا فوجی یا پولیس کا دستہ لنگر وصول کرنے والوں کو گارڈ آف ہانرپیش کیا کرے یا اُنہیں ٹرک پر بیٹھا کر سارے شہر میں گھمایا جائے ، اور یہ اعلان کیا جائے کہ اِن سے ملئیے ، یہ ہیں ہمارے ملک کے معزز افرادجو لنگر لینے کیلئے آج حاضر ہوے ہیں۔ اِنہیں آپ بھی سلام پیش کریں ، اور اگر مالی امداد کر سکتے ہیں تو وہ بھی کریں۔ خدشہ یہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ لنگر حاصل کرنے والوں میں پولیس اہلکار اور سرکاری ملازمین پیش پیش ہونگے۔ پولیس والوں کا عذر یہ ہوگا کہ لوگ رشوت دینے کے بجائے شکایتیں لگا رہے ہیں، اِسلئے اُنکے گھر کا خرچہ پانی بند ہوگیا ہے۔ سرکاری ملازمین وہی تنخواہیں کم ہونے کا گلہ و شکوہ کرینگے۔ بلکہ بات یہاں تک آ چکی ہے کہ کچھ لوگ اپنے مہمانوں کو بھی لے کر لنگر خانہ پہنچنے لگے ہیں۔ شادی کی تقریب میں باراتیوں کو بھی لنگر خانہ پہنچانے کے بارے میں سوچا جارہا ہے۔ تاہم باپ اپنے بیٹے کو یہ تنبیہہ دے رہے ہیں کہ ” مردود اگر پڑھے لکھے گا نہیں تو کیا لنگر خانہ میں جاکر کھانا کھائیگا؟“ بیٹا جواب دے رہا ہے کہ ”ہاں“۔ ماں یہ کہہ رہی ہیں کہ ” ٹھیک ہے اب مجھے کھانا پکانے کی کوئی ضرورت نہیں، سب لنگر خانہ میں جاکر کھا لیا کرینگے۔ “
لنگر خانہ میں تقسیم ہونے والے کھانوں کا مینو کیا ہوا کریگااِس پر بھی ایوان صدر سے لے کر سڑک کے باسیوں کے مابین بحث و تمحیص جاری ہے۔ وزیراعظم کے چند وزیروں کی رائے میں مینو صحتمند ، اور اُس میں صرف گاجر، مولی اور ایک بسکٹ شامل ہونا چاہیے۔ لیکن چونکہ صدر مملکت ایک دندان ساز رہ چکے ہیں، اور وہ اپنے مریضوں کو صرف کھچڑی کھانے کا مشورہ دیتے رہے ہیں، اسلئے وہ مینو میں صرف کھچڑی رکھنا چاہتے ہیں۔ تاہم وزیروں کی اکثریت کی رائے میں مذکورہ مینو سے غریب اور ضرورتمند لوگوں کی بہت حوصلہ فرسائی ہوگی، اور وہ لنگر خانے کا رخ کرنا بھی بند کر دینگے۔ اُن کا مشورہ ہے کہ مینو میں
ناند اور نہاری یا قورمہ ہونا چاہیے۔ قومی تعطیلات کے دنوں میں کھیر یا گلاب جامن بھی تواضع میں شامل
ہو۔ وزیر خزانہ نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ اِس طرح کے مینو سے قومی خزانے پر زبردست بوجھ بڑھ جائیگا۔
پاکستان ہوٹل ایسو سی ایشن کے مالکان بھی ملک بھر میں لنگر خانہ کھولنے پر سخت نالاں ہیں، اور اُنہوں نے احتجاج کرتے ہوے کہا ہے کہ اِس اقدام سے اُنکے کاروبار پر انتہائی منفی اثر پڑے گا، اور اُنکے بہت
سارے گاہک ریسٹورنٹ آنے کے بجائے لنگر خانے کا رخ کر لیا کرینگے۔ فیصل آباد کے ایک جوڑے نے یہ انکشاف کیا ہے کہ مالی دشواریوں کی وجہ کر وہ اب تک شادی کا ارادہ نہیں کیا تھا، لیکن اب لنگر خانہ کھلنے کی وجہ کر مفت کھا نا ملا کریگا، اِسلئے امروز فردا میں اُنہوں نے شادی کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں وعدہ کیا کہ وہ امیروں سے ٹیکس وصول کر غریبوں پر خرچ کرینگے،تاہم وزیراعظم کا وعدہ تا ہنوز ہوائی قلعہ ہی معلوم ہوتا ہے، حقیقت میں ملک کی معشیت ابھی تک ڈانواڈول ہے۔ لوگوں کی توقع یہ تھی کہ پاکستان کی معاشی سرگرمیاں بحال ہوچکی ہیں۔ لیکن ورلڈ فارم کی رپورٹ کے مطابق پاکستان تین پوائنٹ کی تنزلی کے بعد 107 سے گر کر 110 پر چلا گیا ہے۔ یہ ایک افسوس کا مقام ہے۔ تاجر طبقہ کا احتجاج ، دھرنااور ٹیکس نہ دو کی تحریک جاری و ساری ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا وزیراعظم اپنی عقل و فراست سے تاجرطبقے کے جائز مطالبے کو تسلیم کر کے ملک کی معشیت کو دوبارہ ترقی و تیزی کی راہ پر گامزن کرنے میں کامیاب ہوجائینگے یا اُسی طرح لنگری لولی معشیت کے ساتھ ملک چلتا رہیگا۔ قطع نظر اِس امر کہ وزیراعظم عمران خان پاکستان سے فلائٹس آف کیپٹل سے بہت زیادہ پریشان ہیں، اور اِسکا وہ ہر قیمت پر خاتمہ کرنا چاہتے ہیں، لیکن بذات خود ملک کی بیوروکریسی ، چھوٹے اور بڑے تاجر اِس میں ملوث ہیں۔ اِس لئے یہ کام اتنا آسان معلوم نہیں ہوتا ہے۔