بالآخر ڈیموکریٹک پارٹی کا کنونشن منعقد ہوگیا، پارٹی کے رہنما اتنے زیادہ خوفزدہ تھے کہ کنونشن خلا میں منعقد کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے، ایک رہنما کی رائے تھی کہ تمام مندوبین کو سپیس ایکس فیلکون راکٹ کے ذریعہ خلا میں چھوڑ دیا جائے اور وہ وہاں کنونشن منعقد کرکے گھر کو واپس لوٹ آئیں اگر کوئی غلطی سے وہاں رہ جائے تو پھر اپنی کُل زندگی خلا میں ہی بسر کرے، ہر روز کوئی نہ کوئی خلا کا سفر کرتا ہے ، یقینا وہ اپنے بچے ہوئے کھانوں کو وہیں ملیا میٹ کر دیتا ہوگا،علی ہذا القیاس اُن کھانوں میں بیف سٹیک، بہاری کباب ، کلچہ ،لذیذ قسم کی آیسکریم شامل ہوتی ہونگیں، بس اور کیا چاہئے ، لذیذ قسم کا کھانا مفت مل جائے ، رہی بات کمیونیکیشن کی تو اتنے سارے سیٹیلائٹ خلا میں گھوم پھر رہے ہوتے ہیں، اُن میں سے کسی ایک کو بھی پکڑ کے یہ کہہ سکتا ہے کہ ” ارے بھائی مجھے نیویارک کال کرنا ہےبِل ہماری پارٹی والے ادا کردینگے یہ نہ ہو کہ بعد میں جو بائیڈن اعلان کردیں کہ نو کال فروم سپیس، بہرکیف ورچوئل کنونشن منعقد کرانے سے جو بائیڈن کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچا ہے،ایک گھنٹے کی تقریر کو وہ ایک ہفتے میں مکمل کی ہوگی، تقریر کے دوران وہ باتھ روم کا دورہ بھی بارہا کیا ہوگا اگر اُنکا کوئی دوست اُن سے ملنے کیلئے وارد ہوا ہوگا تو وہ اُس سے بھی ہائے وائے کئے ہونگے، تقریر میں جوش و خروش پیدا کرنے کیلئے وہ وٹامن اے سے لےکر زیڈ تک بھی ضرور کھائی ہوگی،صرف یہی نہیں بلکہ تقریر کے دوران وہ بیڈ روم میں جاکر سو ئے بھی ہونگے، بالفرض اگر وہ صدر منتخب ہوگئے تو اپنا بیڈ روم بھی وائٹ ہا¶س کے اوویل آفس میں بعض دوسرے صدور کی طرح منتقل کر دینگے،ایک کال کے بعد دس منٹ اونگھنا، ایک میٹنگ کے بعد ایک گھنٹے مکمل آرام کرنا اور لنچ کے بعد دوگھنٹے سونا اُن کا معمول بن جائیگا،صدر کے حالی موالی اُنکے باڈی گارڈ اُن سبھوں کیلئے وائٹ ہا¶س میں بستر لگا کریگا، صدر امریکا کو یقینا اُن سبھوں کے آرام کا بھی ضرور خیال ہوگا۔
سابق صدر بِل کلنٹن نے اپنی تقریر میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ وائٹ ہا¶س کے تقدس کو پامال کر رہے ہیں، ریپبلکن پارٹی کے رہنماﺅں نے اِسے مضحکہ خیز قرار دیا ہے، اُنہوں نے بِل کلنٹن کو اپنی یادداشت درست کرنے کی تلقین کی ہے اور اُنہیں کہا کہ وہ یہ نہ بھولیں کہ وہ خود اوول آفس میں مونیکا لیونسکی اور دوسری خواتین کے ساتھ گل چھرے اُڑایا کرتے تھے اور تحقیقات کے بعد کانگریس نے انکے خلاف مذمت کی قرارداد بھی منظور کی تھی، ریپبلکن پارٹی کے رہنماﺅں نے مزید کہا کہ بِل کلنٹن تا ہنوز عورتوں کے ساتھ داد عیش کی محفل سجایا کرتے ہیں، ڈیموکریٹک پارٹی کے تمام رہنماﺅں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں پر شدید نکتہ چینی کی ہے۔ آیا اُن کی تنقید حقائق کی آئینہ دار تھیں یا محض دِل کی بھڑاس یہی وجہ ہے کہ سیاسی گرو ﺅں نے مشورہ دیا ہے کہ جب کوئی رہنما سیاسی ریلی یا کنونشن سے خطاب کرے تو اُس کے جسم پر پولیگراف مشین کے الیکٹروڈز نصب کر دئیے جائیں جس کا کنکشن ایک بڑے سے سکرین سے منسلک ہو ، ظاہرا”جب رہنما جھوٹ بول رہا ہو گا تو اُس کے دِل کی دھڑکن اور بلڈ پریشر میں اچانک ارتعاش پیدا ہوجائیگاجو اِس بات کی علامت ہوگی کہ مذکورہ بازاری رہنما لغو بیانی کر رہا ہے اور جس کے ردعمل میں سکرین پر بڑے الفاظ میں ”جھوٹ “ کا لفظ نمایاں ہوجائیگا، جبکہ سچی تقریر پر سچ کا لفظ متواتر روشن رہے گا ، نائب صدر کیلئے ڈیموکریٹک پارٹی کی نامزد امیدوار کامیلا ہیرس بھی اِن دنوں موضوع بحث بنی ہوئی ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اُن کے بارے میں کہا ہے کہ وہ اِس عہدے کیلئے نا اہل ہیں کیونکہ جب اُن کی پیدائش امریکا میں ہوئی تھی تو اُنکے والدین امریکا کے سٹیزن نہ تھے تاہم امریکی قانون کے مطابق جو کوئی بھی امریکی سرزمین پر پیدا ہوتا ہے، وہ خود بخود امریکی سٹیزن شپ کا حقدار بن جاتا ہے لیکن اِسکا یہ مطلب نہیں کہ کامیلا ہیرس کی شخصیت تمام تاثرات و تعصبات سے پاک و صاف ہے۔
سب سے پہلے تو اُنکی والدہ بھارت کے شہر چننائی کے قدامت پسند برہمن گھرانے میں پیدا ہوئیں تھیں بعد ازاں وہ امریکا اعلیٰ تعلیم کی غرض سے چلی آئی تھیں، جہاں اُن کی رفاقت جمیکا سے تعلق رکھنے والے ڈونلڈ ہیرس سے پیدا ہوگئی تھی اور جو بعد میں شادی اور طلاق پر منتج ہوئی کامیلا ہیرس کی پرورش مکملا”ہندو ازم ماحول میں ہوئی تھی یہی وجہ ہے کہ جب اُن کی والدہ کا انتقال ہوا تو وہ اُن کی جسد خاکی کو لے کر چننائی کا سفر کیا تھا اور اُسے خلیج بنگال کے آغوش میں سپرد خاک کیا تاہم بعد ازاں اُن کا تعلق ہندو مذہب اور بھارت سے کسی حد تک منقطع ہوگیا لیکن شادی کے بعد جو اُن کی نیویارک سے تعلق رکھنے والے یہودی ڈگلس ایم ہوف سے ہوئی ہے، وہ شدید حد تک اسرائیل حکومت کی ہمنوا بن گئی ہیںجب 2017 ءمیں ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کے دارلخلافہ تل ابیب کو یروشلم منتقل کیا تھا تو کامیلا ہیرس کی زبان پر قفل لگا ہوا تھا اور وہ ایک لفظ بھی اِس کے خلاف احتجاج میں نہ بول سکیں،متعدد کانفرنس اور تقریبات میں وہ ببانگ دہل اسرائیل کی پُر زور حمایت کرتی ہیں، اُنہوں نے گلے پھاڑ کر یہ کہا کہ اسرائیل کو غازہ اور ویسٹ بینک سے فلسطینی میزائل سے محفوظ رکھنے کیلئے امریکا کو اُسے میزائل ڈیفنس سسٹم فراہم کرنا چاہئے، اسرائیل کو اپنے دفاع کیلئے امریکا سے 40 بلین ڈالر ضرور ملناچاہئے، دیکھنا یہ ہے کہ اگر وہ نائب صدر امریکا منتخب ہوگئیں تو مسلمانوں کو کیا گُل کھلاتی ہیں۔