نئی دہلی:
بھارتی سپریم کورٹ میں جمیعت علمائے ہند کے مولانا اشہد راشدی کی جانب سے بابری مسجد ہندوؤں کو دینے کے فیصلے کیخلاف نظرثانی کی درخواست جمع کرادی ہے۔
جمیعت علمائے ہند کے رہنما مولانا سید اشہد راشدی نے بابری مسجد تنازع پر پہلے قانونی فریق محمد صدیق کی نمائندگی کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں بابری مسجد فیصلے پر 217 صفحات پر مشتمل نظرثانی کی درخواست جمع کرائی ہے۔
درخواست میں مولانا راشدی نے موقف اختیار کیا ہے کہ 1992 میں بابری مسجد کی شہادت میں ملوث بی جے پی رہنماؤں اور دیگر ملزمان کا فیصلہ سنائے بغیر زمین ہندوؤں کو دے دینا، مسجد پر حملہ کرنے والوں کے عمل کی حمایت کرنا ہوگا جو ان ملزمان کو قانونی جواز فراہم کرنے کے مترادف ہے۔
مولانا راشدی نے سپریم کورٹ کی جانب سے سنی وقف بورڈ کو کسی اور جگہ مسجد کی تعمیر کیلیے 5 ایکڑ زمین فراہم کرنے کے حکم پر بھی اعتراض اُٹھاتے ہوئے کہا کہ سنی وقف بورڈ نہ تو فریق اور نہ ہی وہ مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی کوئی مذہبی جماعت ہے۔
مولانا اشہد نے بابری مسجد زمین تنازع کے اصل قانونی فریق محمد صدیق کے وارث کی حیثیت سے استدعا کی کہ سپریم کورٹ بابری مسجد کو شہید کرنے والے ملزمان کیخلاف جلد فیصلہ سنائے، زمین ہندوؤں کو دینے اور سنی وقف بورڈ کو 5 ایکڑ زمین دینے کے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔
بھارتی سپریم کورٹ نے 9 نومبر کو تاریخی بابری مسجد کی زمین ملکیت کیس میں مسلمانوں کو کسی اور جگہ مسجد بنانے کے لیے 5 ایکڑ زمین دینے اور بابری مسجد کی جگہ مندر تعمیر قائم کرنے کا حکم دیا تھا جس کیخلاف آج پہلی نظرثانی درخواست دائر کی گئی ہے۔
قبل ازیں مسلم رہنما اسد الدین اویسی نے سب سے پہلے سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسلمانوں کو مسجد کیلیے زمین کی خیرات نہیں بلکہ بابری مسجد چاہیئے، بعد ازاں جمیعت علمائے ہند اور مسلم پرسنل لاء بورڈ نے ایک ماہ کے اندر نظر ثانی درخواست دائر کرنے کا عندیہ دیا تھا تاہم سنی وقف بورڈ نے تاحال نظرثانی درخواست میں فریق بننے یا علیحدہ رہنے کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔