کیرالہ:
مسلم مخالف متنازعہ قانون پر احتجاج کرنے پر بھارت نے یورپ کے ایک اور شہری کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا۔
بھارت میں مسلم مخالف متنازعہ قانون کی منظوری کے بعد مختلف ریاستوں خاص طور پر مسلم اکثریتی علاقوں میں اس قانون کے خلاف پرتشدد احتجاج جاری ہے جس میں اب تک متعدد افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوچکے ہیں اور سرکاری املاک کو بھی نقصان پہنچا ہے جب کہ مغربی بنگال میں حکومتی سطح پر وزیراعلیٰ ممتا بینرجی کی جانب سے وفاق کیخلاف احتجاج کیا گیا ہے۔
دوسری جانب بھارت میں سیاحت کے سلسلے میں موجود غیر ملکیوں کی جانب سے بھی اس قانون کے خلاف آواز بلند کی جارہی ہے اور مختلف غیرملکیوں کی جانب سے حکومت مخالف احتجاج میں بھی شرکت کی جارہی ہے چند روز قبل جرمنی کے شہری نے بھارتی شہر چنئی میں ایک احتجاج میں شرکت کی اور اس قانون کے خلاف بینرز اٹھاکر غم وغصے کا اظہار کیا تو حکومت کی جانب سے فوری طور پر نوٹس لیتے ہوئے انہیں ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔
رپورٹس کے مطابق ناروے سے تعلق رکھنے والی 71 سالہ جین میٹ جوہانسن کو بھی کیرالا میں حکومت مخالف احتجاج میں شرکت کرنے اور بعد ازاں تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوٹ کرنے پر ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔
71 سالہ جوہانسن کے مطابق احتجاج میں شرکت سے پہلے پولیس نے انہیں زبانی یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ پرامن احتجاج میں شرکت کرسکتی ہیں اس لیے میں وہاں شریک ہوئی لیکن بعد میں امیگریشن حکام میرے ہوٹل کے کمرے میں آئے اور مختلف سوالات کے ذریعے مجھے ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا اور بھارت چھوڑنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ فوری طور پر ملک چھوڑ دو ورنہ ہم تمہارے خلاف قانونی کارروائی کرتے ہوئے ملک بدر کردیں گے۔