بھارتی سازشیں اور پاکستان کا کردار

0
217
جاوید رانا

جاوید رانا، بیوروچیف شکاگو

پچھلے ہفتے پاکستان کے حوالے سے بہت سے ایسے معاملات سامنے آئے جو وطن عزیز کے ناطے کسی نہ کسی حوالے سے تجزئیے اور تبصرے کے حصار میں آتے ہیں۔ ڈیووس میں وزیراعظم کا ورلڈ اکنامک فورم سے خطاب، مختلف عالمی رہنماﺅں سے ملاقاتیں، مختلف چینلز کو انٹرویوز نیز ڈیووس میں پاکستانی کمیونٹی سے میٹ آن بریک فاسٹ میں خطاب، وزیراعظم عمران خان نے اس دوران جہاں ایک طرف پاکستان کے حوالے سے مختلف موضوعات پر سیر حاصل مو¿قف اختیار کیا وہیں مودی اور بھارت کے مکروہ عزائم، انسانی حقوق کےخلاف منفی عمل اور ہتھکنڈوں کو کھول کر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ مودی اور اس کی جماعت RSS کے مقبوضہ جموں کشمیر میں کشمیریوں پر کرفیو کے ذریعے دنیا کا سب سے بڑا قید خانہ بنا کر بنیادی حقوق سے محروم کرنے، کشمیریوں کی نسل کشی اور بھارت میں شہریت کے متنازعہ قانون کے ذریعے خصوصاً مسلم اقلیت کو شہری حقوق سے محروم کرنے کے اقدامات کو کُھل کر بیان کیا اور دنیا کو باور کروایا کہ تین بار پابندی لگائے جانے والی ہندو پرست جماعت RSS اور اس کا تاحیات رکن نریندر مودی اقتدار میں آکر اپنے نازی ازم اور ہٹلرانہ اقدامات سے نہ صرف بھارت میں اقلیتوں کیلئے عذاب کا باعث بن رہا ہے بلکہ انسانی حقوق کی پامالی اور عصبیت کے زہر سے دنیا بھر کیلئے مسئلہ بن رہا ہے، انہوں نے عالمی رہنماﺅں اور اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ مودی اور بھارتی سرکار کے ان اقدامات کا تدارک کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ 1926ءمیں ہندوانہ سوچ اور اکھنڈ ہندو توا ریاست کے قیام کی داعی جماعت RSS کو کبھی خود بھارت میں پذیرائی نہیں ملی، تقسیم برصغیر اور اس سے قبل بھی مہاتما گاندھی اور دیگر بھارتی رہنماﺅں نے جن پانچ عوامل کو بھارت کی پہچان اور ترقی کیلئے بڑی رکاوٹیں قرار دیا تھا، ان میں پہلی رکاوٹ ہندتوا تھی۔ اسی حوالے سے اپنے بے مثال وژن کے باعث بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ نے واضح کر دیا تھا کہ بھارت میں رہنے کا فیصلہ کرنےو الے مسلمان ایک دن اپنے فیصلے پر پچھتائیں گے اور اپنی شناخت سے بھی محروم کر دیئے جائینگے۔ شہریت سے متعلق CAA کے متنازعہ قانون نے قائداعظم کی اس پیش بینی کو سچ ثابت کر دیا ہے، اپنے متعینہ منصوبے کے تحت مودی اور اس کی نظریاتی جماعت RSS نے اپنے دوسرے انتخابی دور میں حکومت میں آتے ہی اس منصوبے پر عمل شروع کر دیا ہے جو نہ صرف ان کے منفی و مکروہ ایجنڈے کےخلاف سارے بھارت میں ہنگاموں، احتجاج اور تقسیم کا موجب بنا ہے بلکہ 1959ءمیں بھارتی آئین کے تحت سیکولر ریاست کے چہرے کو بھی مسخ کر چکا ہے۔ بھارت کی مختلف قومیتوں و مذاہب کی جمہوری ریاست کی نفی کر چکا ہے۔
مودی حکومت کے کشمیر کی خود مختاری ختم کر کے مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاﺅن اور شہریت کے قانون کے نفاذ سے مسلم اقلیت کو شہریت سے محروم کرنے کے نفرت انگیز اقدامات نہ صرف پورے بھارت میں فسادات اور افتراق کا باعث بنے ہیں جن میں ساری سیاسی جماعتیں، دانشور، ہر مذہب اور طبقہ کے افراد حکومت کےخلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں بلکہ دنیا بھر کے انسانی حقوق کے ادارے اور بیشتر ممالک بشمول امریکہ، یورپی یونین، ایشیائی ممالک بھی آواز اٹھا رہے ہیں۔ پاکستانی قیادت خصوصاً وزیراعظم نے اس حوالے سے شدید رد عمل دیتے ہوئے دنیا کو باور کرا دیا ہے کہ مودی اور بھارتی حکومت کی یہ حرکات نہ صرف خطے کے امن کیلئے خطرہ ہیں بلکہ عالمی امن کیلئے بھی نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔ بھارت اپنے اندرونی ہنگامے سے بچنے کیلئے پاکستان پر ملبہ ڈال کر خطہ کی صورتحال خراب کرنے کی کوشش کر سکتا ہے جو دو نیو کلیائی ممالک کی محاذ آرائی کی صورت میں عالمی امن کو متزلزل کرنے کی موجب ہوگی اور اس کے اثرات سے کوئی نہیں بچ سکے گا۔ بھارت کی ہٹ دھرمی کا یہ حال ہے کہ صدر ٹرمپ کی ڈیووس کانفرنس میں عمران خان سے ملاقات کے دوران کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کو رد کر دیا، بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس ایشو پر کسی تیسرے فریق کی شمولیت کو رد کرتے ہوئے اسے دو طرفہ معاملہ قرار دیا ہے اور اسے شملہ معاہدے اور لاہور قرارداد کے تحت حل کرنے کا معاملہ قرار دیا ہے، گویا اس طرح پاکستان کو مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے فریق قرار دیا ہے اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہنے کے مو¿قف میں لچک لایا ہے، یہ لچک پاکستان کے عالمی مو¿قف کی کامیابی ہے۔
ہم نے اوپر کی سطور میں عرض کیا ہے کہ 1950ءکے آئین میں بھارت نے خود کو سیکولر ریاست قرار دیا تھا، اپنی سیکولر جمہوری شناخت کے حوالے سے بھارت ہر سال 26 جنوری کو یوم جمہوریہ مناتا ہے، وہ الگ بات کہ مقبوضہ کشمیر کے لوگ اور سکھ برادری اسے بھارت کا یوم سیاہ کے طور پر کئی برسوں سے مناتے ہیں اور بھارت کے کشمیر پر غاصبانہ قبضے نیز اقلیتوں کے حق خود اختیاری کی نفی کی وجہ سے بھارتی حکومت کےخلاف احتجاج کرتے ہیں۔ اس بار 26 جنوری کو بھی مقبوضہ کشمیر اور پاکستان میں تو یوم سیاہ منایا گیا، خود بھارت میں بھی ا س دن شہریت کے قانون کےخلاف احتجاج و مخالفت پر یوم سیاہ منایا گیا اور کروڑوں بھارتی بلا تخصیص مذہب، دھرم و تعصب سراپا احتجاج نظر آئے۔ شہریت کے قانون سے متاثرہ ریاستوں میں صورتحال یہ تھی کہ حکومت اور حکومتی مو¿قف کی کوئی موجودگی نظر نہیں آتی تھی۔ آسام میں پانچ دھماکے بھی ہوئے، حقیقت یہ ہے کہ مودی کے جن سنگھی ہندوتوا کے عزائم بھارت کے ٹکڑے ہونے کا سبب بن رہے ہیں، بھارت پہلے ہی مینرو رام، ناگالینڈ، خالصتان تحریک کے باعث بھارتی پنجاب، مقبوضہ جموں و کشمیر، لداخ سمیت متعدد ریاستوں میں علیحدگی کی تحاریک سے نبرد آزما ہے، اب شہریت کے قانون کے باعث پورا بھارت بلکہ دنیا بھر میں بھارتی شہری سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب خود مودی اور اس کے سنگھی حواری اس ایجنڈے کے تحت کہ بھارت صرف ہندوﺅں کیلئے ہے، اقلیتوں حتیٰ کہ نچلی ذات کے ہندوﺅں سے بھی مخالفت لے کر بھارت کے خاتمے پر آمادہ ہیں ادھر لندن میں خالصہ تحریک کے رنجیت سنگھ نے بھی خالصتان کے قیام کیلئےءنومبر میں آن لائن ریفرنڈم کا اعلان کر دیا ہے۔ بھارتی حکومت اور مودی کی انسانیت دشمنیوں کےخلاف 26 جنوری کو بھارتی کمیونٹیز نے دنیا بھر میں مودی اور RSS کےخلاف شدید مظاہرے کئے۔ لندن میں بھارتی ہائی کمشنر کی احتجاج کرنے کیخلاف اپیل کو میئر لندن نے مسترد کرتے ہوئے نہ صرف احتجاج کی اجازت دی بلکہ مظاہرین کو سیکیورٹی بھی فراہم کی۔ یہاں امریکہ کی متعدد ریاستوں میں بھی زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے، شکاگو میں بھی بھارتی قونصل خانہ کے سامنے بھارتی کمیونٹی نے بہت بڑا مظاہرہ کیا اور CAA کے منافرانہ قانون کی مذمت کرتے ہوئے حق خود ارادیت برقرار رکھنے، مودی کی RSS کے خاتمے کے مطالبات کئے۔
مودی کے نفرت انگیز اور مسلم دشمن اقدامات کےخلاف اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی و انسانی حقوق کے اداروں اور امریکہ، چین، روس، برطانیہ، ترکی، ملائیشیا سمیت تمام ممالک نے شدید مذمت کی ہے۔ ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے تو بھارت کی کاروباری تعلق کے خاتمہ کی دھمکی کے باوجود سخت اسٹینڈ لیا اور کشمیر CAA نیز بابری مسجد کے حوالے سے اپنے موµقف پر ڈٹے رہے۔ یورپی یونین، امریکہ، برطانیہ، چین، روس کا سخت مو¿قف بھی سامنے آیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بھارت کے اس شیطانی ایجنڈے کےخلاف پاکستان خصوصاً وزیراعظم عمران خان کے بھرپور مو¿قف کے باعث مودی اور بھارتی حکومت کو دنیا بھر میں ذلت و رسوائی کا سامنا ہوا ہے اور اس کی جمہوری دعویداری کا بھانڈا پھوٹا ہے۔ نہ صرف مقبوضہ کشمیر میں اس کی بربریت اور انسانیت دشمنی بلکہ بھارت میں اقلیتوں سے منفی سلوک اور CAA کے نفاذ سے بھارت کی سلامتی خطے میں ہے، دنیا میں بھی اس کا چہرہ مسخ ہوا ہے، یقیناً یہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اور کپتان وزیراعظم کے مستحکم مو¿قف کی کامیابی ہے اور کوئی بعید نہیں کہ اس صورتحال میں بھارت اپنی کمینہ فطرت کے تحت طویل سرحد اور کوسٹل لائن سے پاکستان کےخلاف پراکسی وار مسلط کرنے کی کوششیں کرے یا براہ راست کوئی False Operation کرنا چاہے۔ اس صورتحال میں جہاں ہمیں اپنے تحفظ کیلئے با خبر اور تیار رہنا ہے وہیں ملک کے اندر بے یقینی اور انتشاری کیفیت سے بچنے کی سخت ضرورت ہے۔
بھارت کے کسی بھی ایڈونچر ازم سے نپٹنے کیلئے ہمارے ریاستی ادارے تو ہمہ وقت چوکس و تیار ہیں اور منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں، ہمیں اندر خانہ جو حالات ہیں ان پر بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سیاسی چپقلشیں تو سیاسی نظام کا حصہ ہوتی ہیں اور ان کا ہونا ایک معمول ہے لیکن بہتر گورننس اور عوام کے حالات کی بہتری اور خوشحالی کااقدام بہت ضروری ہے۔ نظام میں بہتری کیلئے ضروری ہے کہ مہنگائی کے بوجھ میں دبے ہوئے عوام کو نجات دلانے اور بہتری کیلئے گورننس پر بھرپور توجہ دی جائے اور ایسے اقدامات کئے جائیں جن سے پوری قوم ایک بہتر معیار زندگی سے بہرہ مند ہو۔ مودی کی نفسانی کیفیت اور پاکستان دشمن فطرت ہماری اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر ملک کے اندر کالی بھیڑوں کو اپنے ایجنڈے کیلئے استعمال کر سکتی ہے۔ کپتان اور ان کی ٹیم کو اپنی توانائیاں اندرونی مسائل و معاملات پر صرف کرنی ہونگی تاکہ دشمن ہمارے اندر سے ہم پر کوئی وارنہ کر سکے۔ مہنگائی کے جن کو واپس بوتل میں بند کرنا اور اپنے اندر کالی بھیڑوں کا خاتمہ اس وقت حکومت کی اولین ترجیح اور کردار ہونا چاہیے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here