پاکستان کے دورہ پر آئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھارت سے کہا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کا احترام کرے۔سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاک بھارت تعلقات میں تناﺅ کا باعث بننے والے معاملات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پانی کو ہتھیار نہیں بلکہ امن کا ضامن ہونا چاہیے۔ انہوں نے پاکستان اور بھارت کے مابین امن مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا۔جناب انتونیو گوتریس نے عالمی اور خطے کے امن کے حوالے سے پاکستان کی کوششوں کو سراہا۔ پاکستان نے اپنے قیام کے وقت سے ایک پرامن اور ذمہ دار ریاست کے طور پر بین الاقوامی معاملات میں کردار ادا کیا ہے۔
چند روز قبل اقوام متحدہ کی امن فوج میں خدمات کی انجام دہی پر بین الاقوامی تنظیموں اور ذرائع ابلاغ نے پاکستانی اہلکاروں کی تعریف کی۔ اپنی کارکردگی‘ مستعدی اور ذمہ دارانہ طرزعمل کے باعث پاکستان سے بھیجے گئے امن فوجیوں کو سراہا‘ پاکستان نے اپنے ہمسائے افغانستان میں امن کے قیام اور سیاسی استحکام کے لئے جولازوال کردار ادا کیا اس کے کردار کی تعریف خود سیکرٹری جنرل نے مہاجرین کے بارے میں کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کی۔ جناب انتونیو گوتریس کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اپنی مالی مشکلات کے باوجود افغان پناہ گزینوں کو جگہ دی جو دنیا کے لئے ایک روشن مثال ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ پاکستان کے اقدامات کے مقابلے میں عالمی برادری کی طرف سے پاکستان کی اس قدر مدد نہیں کی گئی جو ہونی چاہیے تھی۔ پاکستان نے 50لاکھ افغان پناہ گزینوں کو پناہ دی۔افغان پناہ گزینوں کو پناہ دینے کی وجہ سے پورے ملک کے انتظامی‘ سماجی اور معاشی ڈھانچے پر دباﺅ پڑا۔ اس دباﺅ نے منشیات‘اسلحہ اور پرتشدد رویوں کو فروغ دیا۔ پناہ گزینوں کی مدد کے حوالے سے اقوام متحدہ اور دوسری تنظیموں نے کچھ مدد فراہم کی لیکن ان کی وجہ سے جو منفی اثرات سامنے آئے ان کو قابو کرنے کے لئے پاکستان سے تعاون نہ ہونے کے برابر ہے۔اس وقت بھی پاکستان میں 15لاکھ سے زاید افغان پناہ گزین مقیم ہیں۔
پاکستان کی قربانی کو اس لحاظ سے اہمیت ملنی چاہیے کہ امریکہ جیسے دولت مند ملک نے پناہ گزینوں کو روکنے کے لئے نئی پالیسیاں جاری کر دی ہیں۔ وسائل کی کمی کے شکار پاکستان نے تمام تر مشکلات کے باوجود اگر اتنی بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کو گلے لگا رکھا ہے تو اس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان افغان عوام کی مشکلات کا ادراک رکھتا ہے اور مقدور بھر مدد کر رہا ہے۔ بھارت کا طرز عمل پاک بھارت کشیدگی میں اضافے کا موجب بن رہا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر ہر روز جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں۔ ابھی دو دن پہلے بھارتی فوج کی فائرنگ سے ایک 13سالہ بچی زخمی ہوئی۔ ایک سال کے دوران ڈھائی ہزار سے زاید بار بھارت کنٹرول لائن پر فائرنگ یا گولہ باری کر چکا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ بھارتی اشتعال انگیزی کو تحمل و بردباری سے دیکھا۔ جہاں جواب دینا ضروری سمجھا گیا وہاں حملہ کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا گیاکہ نقصان صرف فوجی ٹھکانوں کا ہو‘ کوئی شہری جوابی کارروائی کی زد میں نہ آئے۔اس طرح کے واقعات اور ان کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات سے پاکستان نے اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کو آگاہ کیا ہے اور آزاد کشمیر میں تعینات ان مبصرین کو متاثرہ مقامات کا دورہ کرایا۔دوسری طرف بھارت نے مدت ہوئی مقبوضہ کشمیر سے اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کو بیدخل کر رکھا ہے۔ یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور ہدایات کی خلاف ورزی ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ جناب انتونیو گوتریس نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال کو غیر تسلی بخش سمجھتے ہوئے اس کی بہتری کا کہا ہے۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کہہ رہے ہیں کہ وہ عالمی دباﺅ کے باوجود کشمیر کی آئینی حیثیت بدلنے کا فیصلہ واپس نہیں لیں گے تاہم پاکستان کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر اٹھائی جانے والی آواز عالمی سطح پر پذیرائی حاصل کر رہی ہے۔ دنیا کشمیر کے معاملے کو پوری طرح سمجھ گئی تو معاشی بہتری کی کوشش میں مصروف بھارت کے لئے ایک ایسی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے جہاں تنازع کشمیر کو حل کرنے کے لئے بھارت کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل کرنا پڑے۔ اس ساری صورت حال میں بھارت مسلسل جنگ کی طرف بڑھ رہا ہے جبکہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت دوطرفہ تنازعات کو مذاکرات اور عالمی ادارے کی قرار دادوں کے مطابق حل کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ ایٹمی صلاحیت سے لیس ریاست کو تنازعات کے حل کے لئے جس طرح کا تحمل درکار ہونا چاہیے پاکستان نے اس کی مثالی صورت پیش کی ہے۔ پاکستان کو بھارت کی جانب سے آبی جارحیت کا سامنا ہے۔
دریائی پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہونے کے باوجود بھارت اس کی خلاف ورزی کا ارتکاب کر رہا ہے۔ سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس ان حقائق سے واقف ہیں کہ پاکستان خطے میں قیام امن اور عالمی استحکام کے لئے ایک سرگرم ریاست ہے۔ معاملات بھارت سے تنازعات کے ہوں یا پھر عالمی ماحولیاتی و وبائی امراض کی بات ہو پاکستان کا کردار عالمی اصولوں کے مطابق رہا ہے۔ ان حالات میں سیکرٹری جنرل کا پاکستان کی خدمات کو قابل تعریف قرار دینا ‘کشمیر‘ ایف اے ٹی ایف اور پانی کے معاملات پر عالمی برادری کی حمایت کے آرزو مند پاکستان کے لئے مددگار ہو سکتا ہے۔ سیکرٹری جنرل کی حمایت سے ان کوششوں کو تقویت ملے گی جو پاکستان تنازع کشمیر کے پرامن حل کی خاطر عالمی برادری کے سامنے پیش کر رہا ہے۔