زمین کے بدلتے موسم وجوہات !!!

0
402
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

سید کاظم رضوی

تمام قارئین کو سید کاظم رضا کا سلام پہنچے آپ سب کو دلی عید مبارک ،اللہ آپ کو دنیاوی آفات و بلیات سے محفوظ فرمائے قارئین نظام شمسی میں زمین کی گردش کس طرح موسموں کی تبدیلی لاتی ہے آج اس پر روشنی ڈالی جائیگی ۔زمین اپنے محور کے گرد گھومتی ہیںاور یہ محور وہ فرضی لائن ہے جس کے گرد یہ گردش ہوتی ہے مذید یہی محور قطب شمالی و جنوبی کو ملاتی ہے علوم سیارگان میںہمارے لیئے سب سے اہم زمین ہے کیونکہ اسی سیارے میں ہم رہتے ہیں اگر اس پر رہتے مشاہدات کو سپرد قلم کیا جائے تو یہ بہت آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے کیونکہ مشاھدہ تجربہ کا بزات خود شاھد ہوتا ہے اور اگر ایک سیارے کی حرکات اور اسکے اثرات سمجھ آجائیں تو دیگر سیارگان کی حرکات اور محوری گردشیں اور ان سے پیدا شدھ عوامل کو سمجھ آنا بہت آسان ہوجاتا ہے۔زمین کو افقی و عمودی طور پر آپ تقسیم کردیں تو اس پر ٹارگٹ کا نشان آجائے گا جس میں عمودی سر کی جانب شمالی کرہ ارض جبکہ پاﺅں کی جانب جنوبی کرہ ارض واقع ہے بائیں مشرقی اور دائیں مغرب واقع ہے سائنس نے جہاں ترقی کی اور مقناطیس دریافت ہواتو اس کو آزادانہ دھاگہ سے آپ ہوا میں لٹکائیں اور اس کو گھمائیں تو ہمیشہ مقناطیسی سرے شمالاً اور جنوباً جاکر رک جاتے ہیں کبھی اس سمت سے انحراف نہیں کرتے تو معلوم ہوا اور ثابت ہوا زمین پر ایک ایسی ان دیکھی انرجی بھی ہے جو زمینی مادوں پر اپنا اثررکھتی ہے اگر یہ انرجی نہ ہو تو اسی لمحہ دنیا کے تمام گھومتے جنریٹر ز اپنی توانائی کھو دینگے یا ان میں آگ بھڑک اٹھے گی کیونکہ قطبین سے نکلنے والی لہریں ہی مقناطیس کو قوت دیتی ہیں اور فیراڈے کے قانون کے مطابق آپ کوائل یا مقناطیس سے کسی ایک کوحرکت دیں تو برقی توانائی پیدا ہوتی ہے۔دنیا میں موجود بدھ مت کے پیروکاروں کا خاتمہ ہوجائے انکا مذہب ہی مراقبہ پر ہے اور مراقبہ کیلئے شمال کی جانب رخ کرنا بھی ایک شرط ہے ،اس موضوع پر خواجہ شمس الدین عظیمی مرحوم کی تحریریں او رریسرچ آج بھی مراقبہ کے موضوع پر ایک یونیورسٹی کا درجہ رکھتی ہیں ۔دنیا میں ٹیلی کمیونیکیشن اور ٹیلی پیتھی بھی ان ہی بنیادی اصولوں پر عمل کرکے اور اپنے دماغ کی توانائی کے استعمال اورارتکاز توجہ کی مشقوں کے ذریعے انجام دیئے جاتے ہیں اگر بنیاد ہی نہ ہو تو عمارت کے زمین بوس ہونے میں وقت نہیں لگتا ۔ایک معمولی حادثہ ہی تباہی کا باعث بن جاتا ہے ،اسی لیئے مضبوط بنیاد حصول علوم کیلئے بنیادی حیثیت کی حامل ہوتی ہے ، خیر بات نہ جانے کہاں سے کہاں چلی گئی، میرا مقصد تمہیدی گفتگو کے ساتھ ہی وہ معلومات بھی نقاط کی شکل میں پہنچانا ہوتا ہے جن کی بنیاد پر موضوع کا مضمون اور ریسرچ تشکیل پاسکے، اس وجہ سے بے ترتیبی اور خشک موضوع کی معذرت قبول کیجئے۔
زمین اپنے محور پر 52 اعشاریہ 5 ڈگری جھکی ہوئی ہے، زمین کے محور کے جھکاﺅ کی وجہ سے سال کے مختلف اوقات میں سورج کی شعائیں زمین کے حصوں پر پڑنے کا دورانیہ بدلتا رہتا ہے جس کی وجہ سے موسم تبدیل ہوتا ہے جب سورج ہمارے سر پر موجود ہوتاہے تو وہ وقت دوپہر کا ہوتا ہے اور سورج و زمین کا زاویہ 90 درجے ہوتا ہے, اس پوزیشن کو سورج کو سر پر ہونا کہتے ہیں اور سورج کے سر پر ہونے کی پوزیشن بدلتی رہتی ہے جس کی وجہ سے سورج کی روشنی کی مقدار بھی بدلتی ہے۔ موسم بہار کا شب و روز20 یا21مارچ کو خط استواء کے بالکل سامنے ہوتا ہے تو اس وقت شمالی کرہ ارض کی طرف بہار جبکہ جنوبی نصف کرہ کی طرف خزاں خزاں کا موسم ہوتا ہے, اس دوران شمالی کرہ میں دن بتدریج بڑے ہونا شروع ہوتے ہیں اور راتیں چھوٹی ہوتی جاتی ہیں جیسے جیسے خط استواء سے قطبین کی طرف جائیں سورج سے زمین کا زاویہ کم ہوتا جاتا ہے ۔اس وجہ سے شمالی و جنوبی نصف کرہ میںسورج کی شعائیں برابر پڑتی ہیں تو دن و رات کے دورانیہ دنیا میں قریباً برابر ہوجاتا ہے 12 یا 22 جون کو سر کے اوپر سورج خط سرطان کے اوپر ہوتا ہے اور یہاں پر سورج کی کرنیں سب سے زیادہ پڑتی ہیں یہ وہ زمانہ جب سورج خط استوائ سے زیادہ سے زیادہ دوری پرہوتا ہے جیسے جیسے ہم قطبین کی جانب دوسری طرف جائیں یہاں پھر سورج کا زاویہ کم ہونے لگتا ہے۔ نصف کرہ شمالی میں سال کاسب سے لمبا دن ہوتا ہے اور نصف کرہ جنوبی میں سال کا سب سے چھوٹا دن ہوتا ہے ،اس روز شمالی قطبی علاقے میں سورج 42گھنٹے موجود ہوتا ہے اور جنوبی قطبی علاقے میں 42 گھنٹے تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔
خزاں کا اعتدال شب و روز ۲۲ یا ۲۳ ستمبر کے دن سر کے اوپر سورج دوبارہ خط استواء کے اوپر ہوتا ہے اس روز نصف کرہ شمالی خزاں کے شب و روز میں ہوتا ہے جبکہ نصف کرہ جنوبی بہار کے شب و روز میں ہوتا ہے یہاں پھر جیسے جیسے ہم قطبین کی جانب بڑھیں سورج کا زاویہ کم ہوتا جاتا ہے ،اس دوران دونوں قطبین پر سورج کی روشنی برابر مقدار میں پڑتی ہیں اور دن و رات کادورانیہ برابر ہوتا ہے اس دن کے بعد ہی نصف کرہ شمالی میں خزاں کا موسم ہوتا ہے اور دن چھوٹے اور راتیں بتدریج لمبی ہوتی ہیں کرہ جنوبی میں اس وقت بہار کا موسم ہوتا ہے اور دن لمبے ہوتے ہیں راتیں چھوٹی۔
۲۱ یا ۲۲ دسمبر کورس کے اوپر سورج خط جدّی میں ہوتا ہے اور سورج کی شعائیں سب سے زیادہ پڑتی ہیں خط جدّی میں پڑتی ہیںنصف کرہ شمالی سردیوں یعنی (winter solstice) میں ہوتا ہے جبکہ نصف کرہ جنوبی گرمیوں کے انقلاب شمسی میں ہوتا ہے نصف کرہ شمسی میں یہ سال کا سب سے چھوٹا دن ہوتا ہے جبکہ نصف کرہ میں سال کا سب سے لمبا دن ہوتا ہے، شمالی قطب کے علاقے میں چوبیس گھنٹے اندھیرا رہتا ہے جبکہ جنوبی قطب کے علاقے میں ۲۴ گھنٹے سورج موجود ہوتا ہے۔
یہ سارا نظام سورج کا ایکویٹر یا ربع چوتھائی کہلاتا ہے اور تین ماہ بعد سورج کی سر پر موجود بدلتی زاویوں کی موجودگی زمین پر موسموںکی تبدیلی پیدا کرتی ہیں ۔جلد اس بابت ایک ڈرائنگ پیش کی جائیگی کیونکہ اس سے بات سمجھنے میں آسانی ہوگی ۔اس طرح تخیلاتی طور پرآسان بات بھی پیچیدہ ہوجاتی ہے ۔امید ہے اس سائنسی تشریح سے قارئین بخوبی موسمی تبدیلیاں کیوں ہوتی ہیں سمجھ گئے ہونگے۔
یہ اللہ کا کتنا بڑا انعام ہے کہ بدلتے موسم اس زمین کو ایک طرف ہرا بھرا رکھتے ہیں تو دوسری طرف خزاں کا موسم اس زمین کوزرخیز کرنے کیلئے پت جھڑ کا موسم پیش کرتا ہے ایک طرف دن ہے تو دوسری طرف رات ایک طرف چوبیس گھنٹے سورج موجود تودوسری طرف چوبیس گھنٹے اندھیرا یہ نظام قدرت کا وہ بیلنس یا ترازو ہے اگر اس میں فرق آجائے تو زندگی جمود کا شکار ہوجائے اوروہ بیکٹریا جو موسمی تبدیلی سے مرجاتے ہیں وہ اتنے طاقتور ہوجائیں کہ انسان کو مار ڈالیں بدلتے موسم انسان کو بیکٹریا اور وائرس سےلڑنے میں مدد دیتے ہیں اور انسان و دیگر جانداروں کی قوت مدافعت بڑھنے کا باعث ہیں جبکہ اعتدال سے پڑنے والی سورج کی کرنیں اس جسم میں وٹامن فری سپلاءکا زریعہ اور یرقان سے لڑنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہیں ہم بہت آسانی سے کہہ دیتے ہیں انستاروں اور سیاروں میں کیا رکھا ہے یہ سب دقیانوسی باتیں ہیں جبکہ سمجھدار لوگ ان سیاروں پر کمند ڈالے چاند پر تسخیر کرکے مریخپر دنیا بسانے چلے ہیں کبھی سوچا ایسا کیوں کرتے ہیں یہ پاگل دیوانے لوگ جن کا ہم مزاق اڑاتے ہیں اور ان تجربات کو فضول خرچی سے تعبیر کرتے ہیں ،اب ایک چھوٹا سا وائرس انسانیت کی بقاءکیلئے عظیم خطرہ بنا ہوا ہے اگر ایسی چند اور مثالیںآگئیں تو کیا ہوگا؟ کبھی سوچا !؟ نہیں سوچئیے گا بھی نہیں ابھی دوسری قوموں کا مذاق اڑا لیں اور ان کو دقیانوسی و فضول خرچ اوربیوقوف سمجھیں۔
آخر میں دعا ہے اللہ آپکو اور اہل خانہ کو ہر آفت و بیماری سے محفوظ رکھے اور عید کی خوشیاں دیکھنی نصیب فرمائے۔ آمین
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here