سردار محمد نصراللہ
قارئین وطن! لگتا ہے کہ میرا دانہ پانی ابھی وطن عزیز کی مٹی پر لکھا ہوا ہے اور اب میں کوئی نئی تاریخ روزگار وطن کی نہیں دینا چاہتا جب وقت آئے گا خود بخود سامان سفر تازہ ہو جائےگا اور میں اپنے اہلخانہ اور دوستوں کے درمیان پہنچ جاﺅنگا اور پھر وہی شب و روز کی مصروفیات ہوں گی اور میں ہوںگا جب میں آئی پیڈ پر ٹاک شوز سن سن کر تھک گیا تو سوچا کہ کوئینز روڈ کا چکر لگایا جائے جس کا آج کل فاطمہ جناح شاہراہ نام ہے ملکہ کے بُت سے مزنگ چونگی تک کوئنز روڈ ایک لمبی اور صاف ستھری سڑک ہوا کرتی تھی ایک طرف شاہ حسین بلڈنگ کا کونہ دوسری طرف فی مین گولڈ سمتھ ریڈ کراس نوائے وقت کی بلڈنگ جہاں مجید نظامی اپنے طمتراق کےساتھ براجمان ہوا کرتے تھے۔ جہاں بڑے بڑے لوگوں کو ان کی سیڑھیوں پر چڑھتے اور اُترتے دیکھا۔ انگریزی فلموں کا مرکز پلازہ سینما اس کی دیوار کےساتھ 8 کوئنز روڈ جہاں تین بڑے لوگوں کا مسکن تھا۔ پاکستان فلم انڈسٹری کے پہلے صدر اور ریگل سینما کے مالک W.Z. Ahmad ڈاکٹر عبدالعزیز خان سرجن جنرل گنگا رام ہسپتال اور سردار محمد ظفر اللہ ایڈووکیٹ راقم کے والد سردار صاحب کا غریب خانہ ان کی آخری سانس تک پاکستان کی سیاست کے بڑے بڑے کھلاڑیوں کا مرکز رہا۔ ہماری کوٹھی کے سامنے سول لائنز تھانہ جہاں ایس ایس پی لاہور بیٹھا کرتا تھا چوک میں فوارہ ہوا کرتا تھا اور جب بارش ہوا کرتی اور محلے کے بچوں کےساتھ نہاتا چھلانگیں مارتا اور بعد میں والد یا والدہ سے مار کھاتا۔
قریب ہی ایک بڑی بلڈنگ ہوا کرتی تھی، جب ہوش میں آئے تو پتہ چلا کہ یہ آئی ایس آئی کا صوبائی دفتر ہے جہاں بڑے بڑے لوگوں کی بشمول خادم سردار نصر اللہ بلڈنگ کی یاترا کی خواہش اور میری اس لئے کہ دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ خاص اور اہم لوگ ان کے گملوں میں کیسے تیار کئے جاتے ہیں ،ہائے کیا قسمت کہ عنایت شاہ ولی بابا بلھے شاہؒ کے استاد کے مزار کی قُربت جہاں بھنڈارے کھا کھا کر جواں ہوئے گنگا رام ہسپتال جہاں پانچ بہن بھائی پیدا ہوئے کیا شان تھی کوئنز روڈ کی، ملکہ کے بت سے لے کر مزنگ چونگی تک بڑے بڑے عظیم لوگ رہا کرتے تھے۔ نواب زادہ رشید علی خان، نواب آف ملیر کوٹلہ وہ کہتے ہیں نا ک یونیم اِٹ، ”You Name It“کیسے بڑے پڑوسیوں کے سائے میں پل کر جوان ہوا ہوں، والدین کی وفات کے بعد مین روڈ بالکل گنگا رام ہسپتال کے پیچھے اپنے زمانے کی لاہور کی سب سے پُرسکون بستی ہوا کرتی تھی جو اب گلیوں اور محلوں کا جنگل ہے۔ قارئین وطن! اللہ نے جہاں قسمت میں لکھ کر گدائی اور مزاج آمرانہ دیا جہاں بھی گیا مجھے پڑوسی بہت بڑے بڑے ملے، جہاں مجید نظامی، لاہور کے میئر، شیخ رشید، مشرق اخبار کے مشہور فیچر رائٹر ریاض بٹالوی تینوں شخصیات اللہ کو پیاری ہو گئیں ہیں لیکن میری دیوار سے ملے پڑوسی حاجی شاہد مغل جو نہ صرف میرے پڑوسی ہیں بلکہ بڑے بھائیوں کی طرح ہیں، بڑی مرنج شخصیت ہیں سچی بات ہے کہ اگر ان کا قُرب نہ ہوتا تو کرونا کا یہ خوفناک وقت کٹنا دُشوار ہو جاتا۔
حاجی صاحب کی کمپنی بڑی زبردست رہی بلکہ میرے لئے تو وہ میرے علاقے کے ایم پی اے سے کم نہیں تھے۔ مین روڈ جو اب گلیوں اور محلوں میں بٹ گیا ہے ان کو ہر گھر کی معلومات تھی ان کے دو صاحبزادے تو باقاعدہ پروفیسر ہیں پنجاب کالج میں، خرم شاہد اور مصروس شاہد، ایک اکنامکس اور دوسرے ا آئی ٹی پڑھاتے ہیں ایک صاحبزادہ بینک منیجر ہے اور دوسرا ان کے سلائی مشین کے کاروبار کو سنبھالتے ہیں۔ اگر بھابھی صاحبہ کا ذکر نہ کروں تو کنجوسی ہو گی ان کے ہاتھوں کے آلو بھرے پراٹھوں کی یاد تو امریکہ تک ساتھ جائے گی میں جتنا بھی شاہد مغل کا شکریہ ادا کروں وہ کم ہے کہ ان کی وجہ سے ایام اسیری کٹ گئے۔
قارئین وطن! وطن عزیز کی سیاست پر کیا بات کروں، اکثر یہ بزرگوں سے سنتے تھے کہ بچاری گھری ہوئی تماش بینوں میں اکثر شورش کاشمیری ٹائپ عوامی مقدر سے جب سیاست پر تبصرہ کیلئے کہا جاتا تو وہ یہ درج ذیل شعر پڑھتے!
میرے وطن کی سیاست کا حال کیا پوچھو
بیچاری گھری ہوئی ہے تماش بینوں میں
یہ وہ زمانہ تھا جب نہ تو ٹی وی ہوا کرتا تھا نہ سوشل میڈیا نہ فیس بک اور ٹوئٹر اور اب ان چیزوں کی موجودگی امراﺅ جان ادا کا کوٹھہ لگتا ہے۔ جہاں بڑے بڑے اینکر شام چُراسی کی شاگردی میں اپنے اپنے ساز ایک ہی لے اور ایک ہی تھاپ پر بجاتے ہیں اتنی Repetition ہے کہ نہ حکومت اور نہ اپوزیشن کی سمجھ ایسا ہی وہ کیا مصرعہ ہے کسی گانے کا! کہاں جا رہا ہے تو اے جانے والے، اندھیرا ہے من کا دیا تو جلا لے، بس پیچھے پڑے ہوئے ہیں عمران کی حکومت کے، قاضی فائز عیسیٰ جو سٹنگ جج بھی ہیں، سپریم کورٹ کے ان کے کیس پر ان کے ساتھی ججوں نے مبہم فیصلہ دیا کہ اینکروں نے ایسے ایسے تبصرے کئے کہ مجھے انگریز کا وہ جملہ یاد آگیا!
Task of all Trade Master afairs ، ہر شخص یا تو جج لگایا ایس ایم ظفر، شام چُراسی کا تبصرہ تو ایسا کمال کا تھا کہ عمران ابھی گیا تو ابھی گیا اور اسی نے اور رانا رمضان قائد تحریک عدلیہ نے تو عمران خان اور قاضی فائز عیسیٰ کو آمنے سامنے لا کھڑا کر دیا کمال تو یہ ہے کہ عدلیہ کے مبہم فیصلہ پر پاکستان سے امریکہ تک مٹھائی بٹی، رانا صاحب اس میں بھی پیش پیش تھے۔
قارئین وطن! پچھلے ہفتہ میں نے فوج کو گالیاں دینے والوں کے حوالے سے کالم لکھا جس میں میں نے ان لوگوں کو بتایا کہ راج ناتھ جو بھارت کا کوئی بڑا منتری ہے سے کچھ سیکھ لو کہ وہ اپنی شکست خوردہ فوج کی کتنی تعریف کر رہا ہے اور تم لوگ اپنی بہادر فوج کو گالیاں دیتے نہیں تھکتے۔ ایسے ایسے کمال کے تبصرے اور گالیاں سننے کو ملتی ہیں کہ اللہ خاص طور پر مجھے حیرت ان لوگوں پر ہوتی ہے جو ایوب، ضیا اور مشرف کی آمریتوں میں مزے لوٹتے رہے اور زمین سے عرش تک پہنچے وہ بھی ان میں شامل ہیں، صد شکر ان ضمیر فروشوں میں ہم نہ تھے!
٭٭٭