نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے!!!

0
215
سردار محمد نصراللہ

 

سردار محمد نصراللہ

ویسے تو کہتے ہیں اُمید بہار تقریباً چار مہینے اور 13 دن وطن عزیز کی مٹی پر گزارے اور لگتا ہے، وطن روانگی کا پروانہ دو دن میں مل جائے گا اور ٹرکش ایئر لائن 3جولائی کو نیویارک پہنچا دے گی جہاں میرے اہلخانہ اور احباب منتظر ہیں اور میں بھی بڑا بیتاب ہوں ،ان سب کو گلے لگانے کےلئے!
شکر ہے جانے سے پہلے لارنس گارڈن کُھل گیا افسوس کلب نہیں کھلا جہاں میرے دوستوں کا ایک ہجوم ہے جن سے ٹیلیفونک رابطہ تو رہا لیکن بالمشافہ ملاقات نہیں ہوئی خاص طور پر اسلام آباد میرے دو بڑے پیارے دوست تنویر قیصر شاہد اور ملک احتشام سے نہ ملنے کا بڑا ملال ہے ،تنویر قیصر شاہد تو پاکستانی صحافت کا ایک بڑا نام ہے کئی سالوں پر محیط ان کےساتھ دوستی کا ناطہ بندھا اور کئی نظریاتی اور فکری اختلاف کی نظر سے بچا بچا کر دوستی کے درخت کو تناور درخت کی شکل دے دی۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب وہ فون کر کے میرا حال نہیں پوچھتے اللہ ان کو سلامت رکھے دوسرے امان اللہ خان ہیں بڑے معتبر شخصیت بحریہ ٹاﺅن سے ملنے مجھے آتے ہیں ان کی دوستی کا تحفہ ایک ایسے دوست کی عنایت ہے گوہر علی خان جن سے کسی فقیر کو کبھی بھیک نہیں ملی تو مجھے کو کیا ملتا لیکن وقت کی کوئی اچھی گھڑی ہوگی کہ میرے نصیب میں امان اللہ خان کی دوستی کا ثمر ملنا تھا تھینک یو گوہر، کہتے ہیں جب قسمت کی دیوی مہربان ہو تو ضرور کچھ اچھا ہوتاہے میں اور میرا غریب خانہ شعیب بن عزیز کے قدموں کے ممنون ہیں۔
ایک زمانہ کے بعد پروفیسر آفاق خیالی کی وجہ سے ان سے دوبارہ رابطہ بحال ہوا ہے شعیب صاحب ایک بہت برے سرکاری منصب سے ریٹائر ہونے کے باوجود دوستوں کی خدمت کرتے ہیں اللہ ان کو سلامت رکھے اور ان کا یہ جذبہ بھی انہوں نے ہمیشہ میرے سر پر بڑے بھائیوں والا ہاتھ رکھا۔ اس بار دوستی کے باب میں نیا اضافہ ہوا ہے رائیل ٹی وی کے چیئرمین محمد ابوبکر وٹو ماشاءاللہ اس تنگ دستی کے عالم میں بھی اپنے چینل کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ان کی دوستی کا ہاتھ ایسا لگا جیسے چھوٹے بھائی کا ہاتھ ہو اللہ ان کو کامیابی عطاءکرے اور ایک دن ان کے چینل کا شمار بڑے چینلوں میں ہو۔
امریکہ پہنچنے پر میری دو کتابیں منتظر ہیں۔ ایک جان بولٹن کی اور دوسری مسٹر پروین کی۔ یہ دونوں فادرز ڈے گفٹ ہیں ایک جان شباب کی طرف سے اور ایک بیٹے سردار اسد اللہ لیکن یہاں بھی میں نے اپنا مطالعہ جاری رکھا۔ ہنری کسنجر کی کتاب، خشونت سنگھ کی سوانع عمری جس کو پڑھنے کے بعد میں نے اپنی زندگی کی کہانی لکھنے کا ارادہ کیا ہے ،اس کی زندگی کا بیشتر حصہ گورنمنٹ کالج سے لے کر ریس کورس روڈ جو آج کل چائنہ چوک کہلاتا ہے اس کا سب سے بہترین دوست منظور قادر یہ وہی منظور قادر ہے جس نے ایوب آمریت کے فروغ میں کنٹرول ڈیمو کریسی کو زندہ رکھا، بد قسمتی سے وہ میرے والد سردار ظفر اللہ کے بہترین دوستوں سے تھا پھر تنویر قیصر صاحب نے دو کتابیں رکمنڈ کیں، فقیر خانہ والوں کی روزگار، فقیر میرے مرشد علامہا قبال پر اس میں اپنے دادا مولوی انشاءاللہ خان ایڈیٹر اور پبلشر اخبار وطن پڑھ کر اپنی رگوں میں صحافتی شوخیاں پا کر دل خوش ہوا۔ جس کو میرے پبلشر مجیب لودھی نے اُجاگر کیا دوسری کتاب لوگ در لوگ لفٹ کی جدوجہد کے گوئیزی ہیں اچھی سلیس اور روانی کےساتھ لکھی ہے کتاب زیادہ تر ترکی اور ہندوستان کی شخصیات پر لکھی ہے چند پاکستانی شخصیات معراج خالد، شیخ رشید، حنیف رامے، بینظیر بھٹو شہید، کاہلوی صاحب، فیصل آباد کے امان اللہ صاحب جن میں سے اکثر میرے والد کے قریبی دوستوں میں سے تھے اور ان کےساتھ میری نیاز مندی بھی رہی سرگودھا کا گوئیزی نے ایک بار پھر برخردار خشونت سنگھ کا ذکر کیا اور خاص طور پر لاہور کی ان سڑکوں پر جہاں میرا شباب جواں ہوا بشیربدر کے اس شعر نے !
اُجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کسی گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
انگڑائی لی اور میں نے سوچا کہ سردار نصر اللہ چل ریگل سینما کے چوک سے سینٹ ایتھونی اسکول کو بوسہ دیتے لارنس روڈ کی ایک در دیوار کو چومتا ہوا چل چائنہ چوک تک جہاں نے اپنے نوکروں کے بچوں ظفر اور مشتاق کےساتھ مل کر تربوز کا چھابہ لگایا تھا ابھی دوکان داری کا شوق پورا نہیں ہوا تھا۔ منظر بشیر کی ہمشیرہ آنٹی طلعت نے میری والدہ کو خبر دیدی۔ تھوڑی دیر میں میری والدہ ممی، ہماری گورنس، شیلا شلورٹن کو لے کر تیکسی میں پہنچ گئیں۔ بس پھر اس کے بعد کیا ہوا میں اور میرا اللہ جانتاہے دن میں تارے نظر آئے لارنس روڈ زندہ ہے نہ ماجھا ڈور والا ہے نہ آنٹی الطاف فاطمہ ناول نگار، بابا تاج دین لاٹو والا، پورے پاکستان میں اس جیسے لاٹو کوئی نہیں بناتا تھا اور اس سڑک کا سب سے بڑا اثاثہ منظر بشیر کی کھوٹی غائب ہے جہاں قائداعظم اور مادر ملت آکر رہا کرتے تھے۔ شہید ملت لیاقت علی خان کے پوتے رہا کرتے تھے پتہ نہیں اب کہاں ہیں عالیشان کوٹھیاں ٹوٹ گئیں ان کے شاندار مکین خاک میں دب گئے ،نہ وہ ہندو رہے نہ سکھ رہے اور نہ ہی مسلمان جن سے لارنس روڈ آباد ہوا کرتا تھا اب لارنس روڈ کا نام اسی ارب روپے کی ملکیت کے مالک کے نام سے منسوب ہے جن کو ہم مجید نظامی کے نام سے جانتے ہیں ،اس کو کہتے ہیں بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے ،کل کوئی اور تھا آج ہم ہیں کل کوئی اور ہوگا وہ کیا ہے فراز کا شعر!
ہم نہ ہونگے تو کسی اور کے چرچے ہونگے
خلفت شہر تو فسانے مانگے!!!
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here