مفتی عبدالرحمن قمر،نیویارک
بہر طور اسلاف کی زندگیوں سے ہمارا گہرا تعلق ہے کوئی نہ کوئی جب بھی موجودہ زمانے کی کوئی بات سنتے ہیں یا دیکھتے ہیں تو فوراً اسلاف کا کردار ہمارے سامنے آجاتا ہے،ہم تو جو مال مخلوق خدا کے حق حقوق سے عضب کرتے ہیں وہ لوٹا نا چاہئے ، اپنے مال میں سے سخاوت کریں۔ہم اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں مگر وارثوں کا مال لوٹانے کا سوچ بھی نہیں سکتے حالانکہ اسلامی نقطہ نظریہ ہے کہ مال اگر اپنی اولاد کے لئے چھوڑ جائیں گے وہ جو غرباءکا حق حقوق ہے۔بے شک آپ کے محل اور پلازے تو قائم رہیں گے نام کی تختی بھی لگی رہے گی مگر مال آپ کے تصرف میں نہیں ہوگا ،گل چھرے آپ کی اولاد اڑائے گی لیکن حساب وکتاب آپ دے رہے ہوں گے۔اس مال کا کیا فائدہ جو آپ نے خزانچی بن کر سنبھالا ،موج دوسرے کریں گے، حساب آپ کے ذمہ ہے، حضرت عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب آپ حضرت سیدہ زینب کے شوہر نامدار تھے۔آپ پہلے مسلمان ہیں جو حبشہ میں پیدا ہوئے چونکہ حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ سفیر بن کر حبشہ گئے تھے۔ان کے دو فرزند کربلاءمیں شہید ہوئے تھے ،حضرت عون اور حضرت عمر محمد، حضرت عبداللہ بن جعفر ایک سفر پر تھے تو وہاں ایک جماعت نخلستان میں پہلے سے موجود تھی۔آپ نے کچھ دیر آرام کیا اور پھر نخلستان سے باہر نکلے تو ایک حبشی غلام بھیڑ بکری چرا رہا تھا ،تھوڑی دیر میں ایک کتا بھی آکر بیٹھ گیا میں دیکھ رہا تھا غلام نے اپنا کپڑا کھولا جس میں روٹیاں تھیں اور کھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا مگر رک گیا۔اس نے روٹی اٹھائی اور کتے کے آگے رکھ دی اور پھر انتظار میں بیٹھ گیا۔ کتا روٹی کھا کر بیٹھا رہا، غلام نے دوسری روٹی نکالی کتے کے آگے رکھ دی خود پھر انتظار میں بیٹھ گیا ۔ غلام نے تیسری روٹی کتے کے آگے رکھ دی ،کتا تیسری روٹی کھا کر چلا گیا۔غلام نے دونوں ہاتھ کو جھاڑا دعا کی اور کپڑا لپیٹ کر رکھ دیا۔ حضرت عبداللہ بن جعفر فرماتے ہیں میں آگے بڑھا اور پوچھا نوجوان تم کیا کھاﺅ گے ؟اس نے کہا حضرت اس علاقے میں کتا نہیں ہوتا یہ پہلی مرتبہ آیا تھا یقیناً بھوکا تھا۔اس لیے میں نے ساری روٹیاں اس کو کھلا دیں۔میں تو مسلمان ہوں ،روزہ بھی تو ہم رکھ لیتے ہیں ،آج اگر نہ کھاﺅں گا تو کونسی قیامت آجائیگی۔میں تو اس بات پر خوش ہوں کہ میرے پاس سے مہمان بھوکا نہیں گیا۔حضرت عبداللہ بن جعفر نے مالک کا پتہ پوچھا اور غلام سمیت پورا نخلستان خرید کر وثیقہ غلام کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ اے میرے بھائی آپ جیسے کو غلام نہیں مالک ہونا چاہئے۔میں نے اللہ کی رضا کے لئے تمہیں آزاد کیا اور یہ سارا نخلستان تمہاری ملکیت میں دے دیا۔غلام نے ہاتھ اٹھا کردعا مانگی حضرت عبداللہ کو دعا دیکر شکریہ ادا کیا اور کہا حضرت میں یہ سارا نخلستان اللہ کی رضا کیلئے مخلوق خدا کیلئے وقف کرتا ہوں ،اب آپ کو نگران مقرر کرتا ہوںپھر ہاتھ اٹھائے دعا کی اور ایک طرف کوچل دیا، حضرت گہری سوچ میں چلے گئے۔اے عبداللہ تو سمجھ رہا تھا کہ میں نے سخاوت کی مگر یہ غلام سخاوت پر سخاوت کرکے چلا گیا۔
٭٭٭