رعنا کوثر
کہتے ہیں کہ بچے دل کاسکون آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتے ہیں ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کی معصومیت اس کا پرسکون انداز میں ہونا اور اس کی نازک جلد ہر طرح کے سردوگرم سے بے خبر یہ بچہ اور ہر انسان کا دل موہ لیتا ہے اور لوگ اس معصوم بچے پر پوری توجہ صرف کر دیتے ہیں حالانکہ وہ ذرابھی یہ نہیں کہتا کے مجھے اٹھا لو مجھے توجہ دو مگر لوگ اسے گود میں لینے کے لیے بے چین رہتے ہیں۔یہی بچہ جب تھوڑا اور بڑا ہوتا ہے تو اس کا مسکرانا ہاتھ پاﺅں مارنا ہنسنا اسے اور بھی پیارا بنا دیتا ہے۔یہی بچہ جب ایک دو سال کا ہوتا ہے تو اس کا لڑکھڑا کر چلنا گرنا اور اُٹھنا بہت ہی پیارے جملے بولنا ،تو تلانا اس پر پیار ہی پیار آتا ہے۔اور لوگ بے اختیار ایسے بچوں سے پیار کرنے لگتے ہیں یہ اللہ کی بے حد پیاری مخلوق ہے۔جس کو محبت اور توجہ چاہئے ہوتی ہے والدین کو اللہ نے اسی لیے بنایا ہے کے وہ ایک معصوم بچے کو پال پوس کر بڑا کریں ایک چھوٹا بچہ بے شک لوگوں کی توجہ اپنی جانب کرلیتا ہے اپنی معصومیت اور اپنی معصوم حرکتوں کی وجہ سے مگر ایک بچہ آپ کے لیے ایک امتحان بھی ہوتا ہے وہ پیدا ہوتے ہی والدین کی رات کی نیند اور دن کا آرام چھین لیتا ہے مگر اللہ نے والدین کے دل میں اتنی محبت ڈالی ہوتی ہے کے وہ اس بچے کے لیے اپنا آرام اپنی نیند قربان کردیتے ہیں مگر دیکھا جائے تو بچے کو پالنا بھی ایک انسان کا کام نہیں ہے۔ایک پیدا ہوئے بچے کی دیکھ بھال تو والدین ہی کرتے ہیں لیکن نئے والدین کی دیکھ بھال کرنے والا بھی کوئی ہونا چاہئے تاکے انہیں بھی آرام اور سکون ملے خاص طور سے جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو ایک نئی ماں کو جس کا پہلا بچہ ہو مدد کی ضرورت ہوتی ہے اسے اچھی خوراک کی ضرورت ہوتی ہے اچھی نیند کی ضرورت ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر ذہنی سکون کی ضرورت ہوتی ہے۔پہلے کے بزرگ کہتے تھے کہ جب کسی کے ہاں بچہ پیدا ہوتا تھا تو سوا مہینے یعنی ایک مہینہ دس دن ماں کو بہت آرام دیا جاتا غریب سے غریب انسان بھی اچھی خوراک کا انتظام کرتا تاکے اس عورت میں طاقت رہے اور پھر بے شک وہ گھر کے کام دھندوں میں لگی رہنے جتنی چاہے محنت کرلے مگر اس وقت اسے اچھا آرام دیا جاتا اور کہا یہ جاتا ہے کے وہ ان کی نسل کو پروان چڑھائے گی اس لیے اسے بروقت اچھی خوراک آرام اور سکون دیا جائے۔گھر کے بزرگ اور احباب تک مدد کرتے بچے کو آرام سے اپنے پاس سلاتے تاکے ماں تھوڑی دیر آرام کرے۔تمام لوگوں کی محنت سے ایک بچہ پروان چڑھتا جوکے نہ تو ماں باپ کے لیے بوجھ ہوتا نہ ہی اس کی معصوم شخصیت خراب ہوتی وہ سب کی آنکھوں کا تارا ہوتا وہ دنیا میں عزت پاتا اپنا مقام بناتا اورایک مہذب اچھا انسان بنتا۔آج کل یہ سب کم ہوتا جارہا ہے والدین خود ہی ہر بوجھ اٹھانا چاہتے ہیں وہ آزادی کے طالب ہیں اور انہیں اکیلے ہی بچے پالنے ہوتے ہیں یوں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور ایک مہذب جسمانی اور ذہنی بیماری سے دور نارمل بچہ پالنا مشکل ہوتا ہے والدین بھی چڑچڑے اور روکھے پھیکے ہوجاتے ہیں۔
دوسری جانب والدین تو چاہتے ہیں کے کوئی ان کی مدد کرے مگر کوئی بزرگ یا کوئی بہن بھائی آجائے اور ان کی رہنمائی کردے انہیں سکون اور آرام دے مگر ان کو مایوسی ہوتی ہے۔کیونکہ تمام گھر والے کہہ دیتے ہیں کے ہم مصروف ہیں یا پھر وہ کسی معاملے میں الجھنا ہی نہیں چاہتے ہیں یوں کوئی ان نئے والدین کی مدد نہیں کرپاتا۔
اگر ہم یہ سمجھ لیں کے ایک معصوم بچہ جو اس دنیا میں آیا ہے پیغام ہے اس بات کا کے دنیا چلتی رہے گی انسان کو انسان کی ضرورت ہمیشہ رہے گی اس لیے ایک دوسرے کو نظر انداز کرنے کی بجائے ایک دوسرے کی مدد کریں۔تاکے دنیا میں اچھے سے اچھے انسان پروان چڑھیں۔