جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو
گزشتہ دس دنوں میں عدالت کے مجرم، ڈیکلیئرڈ مفرور نوازشریف نے جس طرح پاکستانی اسٹیبلشمنٹ خصوصاً فوج اور ریاستی اداروں کےخلاف زہر اُگلا ہے، ہمیں ایک شعر یاد آرہا ہے، ”جن پتھروں کوہم نے عطاءکی تھیں دھڑکنیں، ان کو زباں ملی تو ہم ہی پر برس پڑے“۔ جنرل جیلانی اور ضیاءالحق کے احسان سے سیاست میں آنے والے تین بار فوج کی مہربانی سے وزیراعظم بننے والے نوازشریف کے منہ سے فوج پر لاف زنی اس کی منفی اور خود پسند ضدی فطرت کی واضح تصویر ہے۔ ایک ایسا شخص جو کبھی بھی مثبت سوچ اور عمل کا حال نہیں رہا ہے۔ نوازشریف کی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو سیاست میں آنے سے قبل بھی وہ میاں محمد شریف کے تین بیٹوں میں سب سے نکما تھا۔ عباس شریف اور شہباز شریف کے برعکس نوازشریف نہ پڑھائی میں دلچسپی رکھتا تھا اور نہ ہی خاندانی کاروبار سے اسے کوئی دلچسپی تھی۔ اپنی ضدی اور منفی فطرت کے باعث من مانیاں کرتا تھا۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں میاں شریف کے اثر و رسوخ کے باعث اسپورٹس کے کوٹے میں داخلہ ملا۔ کرکٹ کا شوق تھا مگر کرکٹر بھی نہ بن سکا، البتہ اپنے والد کی کوششوں اور سرکاری و فوجی اشرافیہ سے تعلقات کی بناءپر ریلوے میں اسپورٹس کے کوٹے میں بطور کرکٹر ملازمت ضرور کر لی۔ اپنے تفاخر اور باپ کی دولت پر فخر کی بنیاد پر اچھا کھلاڑی بھی نہ بن سکا۔
اس کی ابتدائی غیر سیاسی زندگی تو کسی بھی طرح قابل ذکر نہ رہی، سیاست میں بھی یہ شخص جس طرح آیا، وہ کہانی اب کوئی راز نہیں اور زبان زد عام ہے کہ کس طرح اپنے باپ کے جنرل جیلانی سے تعلقات کے باعث یہ ضیاءالحق کے مارشل لاءکے دور میں پنجاب کا وزیر بنا۔ 85ءکے الیکشن کے بعد کس طرح جنرل ضیاءکے ایماءپر اس نے محمد خان جونیجو کےخلاف سازش کی اور نواز لیگ نے جنم لیا۔ نوازشریف کی کینہ پروری اور سازشی و خود پسندی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس فوج نے اس کی سیاسی پرورش کی، اسی فوج کے پانچ سربراہوں کی اس نے مخالفت کی اور نزاعی و تنازعاتی جھگڑوں میں ملوث رہا۔ نہ صرف یہ بلکہ اپنی کمینی فطرت کے باعث دو صدور پاکستان غلام اسحاق خان اور فاروق لغاری سے بغض کے باعث نہ گھر کا رہا نہ گھاٹ کا۔ نوازشریف تین بار پاکستان کا وزیراعظم رہا لیکن تینوں بار ذلیل ہو کر نکالا گیا۔ تفصیل میں جائے بغیر اتنا ہی عرض کر دیتے ہیں کہ اس کی فطرت میں خود پرستی، غرور اور ہوس و حرص کے عناصر اس کی ناکامیوں کی جہاں وجہ ہے وہیں اس کی اولاد کا کردار بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ اپنی انا اور اپنے مفادات (ذاتی سیاسی و کاروباری) کیلئے اس شخص نے پاکستان کے دشمنوں سے مراسم میں بھی کوئی عار نہیں کی۔ بھارت میں اپنے کاروباری مفادات کیلئے نہ صرف بطور ایک پاکستانی بلکہ بطور وزیراعظم بھی جو کُھل کھیلے وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ مودی اور جنڈال کی کہانیاں تو اپنی جگہ، کلبھوشن کے معاملہ میں بھی یہ شخص کبھی کسی فورم پر لب نہ ہلا سکا، جھوٹ، مکر، تنگ نظری، نوازشریف کی فطرت میں اس درجہ موجود ہے کہ وہ اپنے فائدے کیلئے ملک و قوم کی سودے بازی سے بھی نہیں چُوکتا اور اپنے مفاد کیلئے قومی مفاد و بیانئے کےخلاف باتیں کرتا ہے۔ اجمل قصاب کے معاملے میں جس طرح اس نے پاکستان کے بیانیئے کی نفی کرتے ہوئے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر الزام تراشی کی تھی وہ مثال ہے۔ ڈان لیکس کی سازشی حرکت بھی اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ نوازشریف کی ان حرکات میں اس کی بیٹی بھی پیچھے نہیں رہی نہ ہی اس کے بیٹے۔ بیٹوں نے جھوٹ اور دو نمبری سے بیرون ملک اپنی امپائرز بنا لی ہیں اور عیش کر رہے ہیں۔
عدالت سے نا اہل اور احتساب عدالتوں سے سزا کے مجرم نوازشریف نے جس طرح بیماری کا ناٹک رچا کر لندن مراجعت کی اور اب واپس نہ آنے کے چکر میں اس وقت تک ہے جب تک اسے گرین سگنل نہ مل جائے۔ اس چکر میں جہاں وہ بیرونی طاقتوں اور پاکستان کے دوست ممالک کے پیر پڑ رہا ہے وہیں ملک کے مقتدر حلقوں سے بھی اپنے کرتوتوں سے گریز اور وفاداری کے وعدے وعید کی کوششوں میں لگا رہا۔ مریم نواز کی دس مہینے خاموش اور جنرل عمر مرحوم کے بیٹے محمد زبیر کی ملاقاتیں اس حقیقت کے مظاہر ہیں۔ جب اسے ریاست اور حکومت کی جانب سے کوئی رسائی نہ ملی تو وہ پھر اپنی منفی فطرت اور بیانیئے پر اُتر آیا ہے اور وہ رویہ اور کردار اپنا رہا ہے جو ریاست اور مملکت کےخلاف پاکستان دشمنوں کے مفاد میں ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ ہفتے میں اس بظاہر بیمار شخص نے پاکستان کے ریاستی و حکومتی اداروں کےخلاف APC اور اپنی جماعت کے اجلاسوں میں گھنٹوں خطاب کیا وہ کسی بھی طرح ملک کے تین بار وزیراعظم رہنے والے شخص کا بیانیہ نہیں ہو سکتا۔ البتہ کلبھوشن جیسے بھارتی ایجنٹ یا مودی کے RSS ایجنٹ کا کردار ہو سکتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ خصوصاً پاک افواج کےخلاف باتوں سے اس شخص کی وہ نفرت انگیز فکر نظر آتی ہے جو پاکستان دشمنی کے زمرے میں آتی ہے، جبھی تو بھارتی حکومت اور میڈیا اس کے حق میں ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں حد تو یہ ہے کہ نوازشریف کا داماد، جو خود فوج سے ریٹائرڈ ہے گوجرانوالہ میں کور کمانڈر کی رہائش گاہ پر مظاہرہ اور حملہ کرنے کا اعلان کرتا نظر آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ نوازشریف کا پورا خاندان ذہنی طور پر آﺅٹ ہو چکا ہے یا حد سے زیادہ خوش فہمی کا شکار ہے کہ وہ اپنی ان حرکات سے اسٹیبلشمنٹ پر اثر انداز ہو سکیں گے اور اپنے لئے نجات کا راستہ نکال لیں گے۔و ہ شاید یہ بھول گئے ہیں کہ پاکستان کی افواج دنیا کی بہترین عسکری قوت شمار کی جاتی ہیں جو نہ صرف وطن کا بیرونی دشمنوں سے دفاع بخوبی کر سکتی ہے بلکہ اندرونی دشمنوں کا قلع قمع بھی کرنے کی بھرپور صلاحیت اور تجربہ رکھتی ہےں۔
حکومت اور مخالف سیاسی جماعتوں کے جھگڑوں اور مخالفین کے اے پی سی کے انعقاد ناور پی ڈی ایم کی تشکیل پر غالباً نوازشریف کو یہ گمان ہو گیا تھا کہ اس کے نیتجے میں وہ پنجاب میں اپنے اکثریتی حلقہ¿ انتخاب اور دیگر سیاسی پارٹیوں کے اشتراک سے وہ مقتدرین کو اس طریقہ سے دباﺅ میں لا کر اقتدار اور اپنے جرائم وسزاءسے مفر کی راہ حاصل کر سکے گا کہ بیک ڈور چینلز اور ہمدرد عوام کی کوششیں تو بار آور نہ ہو سکیں۔
نوازشریف کی باغیانہ اور نفرت انگیزی تقاریر پر تو پابندی لگ گئی ہے لگتا ہے کہ نواز لیگ اب اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ اگر اقتدار نہیں ملا تو ملک کو اس نہج پر پہنچا دیا جائے جہاں مقتدرین ان کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو جائیں۔ کیپٹن صفدر کی کور کمانڈر گوجرانوالہ کے حوالے سے دھمکی، سعد رفیق کا پنجاب کے حوالے سے متعصبانہ نعرہ اور مریم نواز کی ریاستی اداروں پر لاف زنی خالی از علل نہیں۔ فضل الرحمن کی ریاستی اداروں کو افغانستان و امریکہ کی مثال دے کر دھمکی بھی کسی طرح پاکستان اور عساکر پاکستان کے حق میں نظر نہیں آتی۔ اس صورتحال میں ہمیں یقین ہے کہ عوام ان ملک دشمن عناصر کی حامیت ہر گز نہیں کرینگے۔ مولانا طاہر اشرفی کا لاہور میں خطاب اس امر کی شہادت ہے کہ پاکستان کے محب وطن طبقات ان چوروں، بدمعاشوں اور ملک دشمنوں کو کامیاب نہیں ہونے دینگے۔
لیکن کیا حکومت اور عسکری قیادت کو اب محض بیان بازی اور لوٹ مار کے منترے سے باہر نکل کر اب کچھ ٹھوس اقدامات کرنے کا وقت نہیں آگیا کہ ان عناصر کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ شیخ رشید، شہباز گُل، چوہان وغیرہ کی لن ترانیاں اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔ پاکستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے منفی سیاسی و دیگر قوتوں کو اقتدار کے بھوکوں کو لگام ڈالنے کا وقت آگیا ہے۔ چیمبر آف کامرس کراچی کے صدر سراج قاسم تیلی کا ایک آڈیو کلپ سوشل میڈیا پر چل رہا ہے جس میں ریاستی اداروں سے بروقت اقدام کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ ملکی معیشت کیلئے اگر شریفوں، زرداریوں، فضل الرحمن، جیسوں کا بندوبست نہ کیا گیا تو صنعت کار و افرادی قوت ملک چھوڑنے پر مجبور ہو جائیگی۔ اے پی سی اور پی ڈی ایم تو محض ایک سراب ہے، مخالفین کا اپنے وجود کو قائم رکھنے کی کوشش نا تمام۔ کیا زرداری اپنی صوبائی حکومت کی قربانی دینے پر راضی ہوگا ، محض نواز لیگ کے اقتدار کیلئے یا مولانا ڈیزل اپنا مدرسوں کا کاروبار ختم کرنے پر راضی ہوگا۔ ہر گز نہیں یہ تماشہ محض دباﺅ بڑھانے کی سوچ ہے لیکن ناکام سوچ ہے۔
٭٭٭