کراچی:
سندھ میں زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے سے بظاہر عام آدمی کو سہولت میسر ہوئی ہے کہ محض سروے نمبر لکھنے سے متعلقہ زمین کا ریکارڈ سامنے آجائے گا لیکن کمپیوٹرائزڈ کیا گیا تمام رکارڈ کیا قابل بھروسہ بھی ہے؟
حکومت سندھ کے ذمے دار زمینوں کے ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کو شفافیت کی جانب اہم اقدام قرار دیتے ہیں جبکہ ایک رٹائرڈ بیوروکریٹ سمیت بعض لوگ اسے شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
ایک رٹائرڈ افسر،جو خود ممبر بورڈ آف ریونیو سندھ کے عہدے پر فائز رہے، کا کہنا ہے کہ کراچی سمیت سندھ کے کئی اضلاع میں کمپیوٹرائزڈ کیا گیا ریکارڈ نئے سرے سے تیار کرنے کے بعد کمپیوٹرائزڈ کیا گیا۔
اس وجہ سے اس کے قابل بھروسہ ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے، اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انھوں نے ’’ایکسپریس ‘‘ کو بتایا کہ کراچی سمیت سندھ کے کئی اضلاع میں کمپیوٹرائزڈ کیا گیا ریکارڈ نئے سرے سے مرتب ( reconstruct ) کیا گیا تھا، انھوں نے انکشاف کیا کہ مذکورہ اضلاع میں ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کرتے وقت زمینوں کے اصل کاغذات دستیاب نہیں تھے اور نئے سرے سے کاغذات بناکر انھیں کمپیوٹرائزڈ کیا گیا۔
ان کے مطابق مذکورہ ریکارڈ کو نئے سرے سے تیار کرنے کی سرکاری طور پرمختلف وجوہات بتائی گئی تھیں، جن میں اصل ریکارڈ کا آگ لگنے کے واقعات میں جل جانا اور پرانے ریکارڈ کا پھٹ کر ضایع ہوجانا جیسی وجوہات شامل تھیں، کراچی کے اولڈ ایریا میں زیادہ تر ریکارڈ کو نئے سرے سے بنایا گیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ کراچی کے علاوہ دیگر اضلاع میں بھی تقریباً یہ ہی صورتحال دیکھنے میں آئی جہاں پورے کے پورے تعلقوں کا اصل ریکارڈ غائب تھا۔
انھوں نے بتایا کہ ریکارڈ کی دستیابی کے معاملے میں میرپورخاص اور سانگھڑ جیسے اضلاع کو دیگر اضلاع کے مقابلے میں بہتر سمجھا جاتا تھا لیکن وہاں بھی کئی علاقو ں میں یہ صورتحال دیکھی گئی، صالح پٹ سمیت مختلف تعلقوں میں زمینوں کا اصل ریکارڈ دستیاب نہیں تھا،جب صوبائی وزیر سید ناصر حسین شاہ سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے ریکارڈ میں گھپلوں کے الزام کو مسترد کیا اور کہا کہ ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کا عمل شفاف طریقے سے کیا گیا ہے۔