پولیس گردی کی بدترین مثال!!!

0
313

اسلام آباد سرینگر ہائی وے پر شمس کالونی میں رات گئے نسٹ یونیورسٹی کے قریب واقع سیکٹر ایچ الیون میں اپنے دوست کو چھوڑ کرگھر واپس آنے والے نوجوان کی گاڑی پر وفاقی پولیس کے اے ٹی ایس سکواڈ نے اندھا دھند فائرنگ کر دی جس سے نوجوان موقع پر جاں بحق ہوگیا۔تھانہ رمنا نے وقوعہ کے بعد اے ٹی ایس کی پوری ٹیم کو حراست میں لے لیا۔دوسری طرف وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کے احکامات پرجوڈیشل انکوائری کے لیے نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔رانا وقاص انور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ انکوائری افسر کیے گئے ہیں۔جوڈیشل انکوائری کو پانچ روز میں جامع رپورٹ تیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ہر ذی روح امن کا خواہاں ہے اور امن معاشرہ کی اہم ترین ضرورت بھی ہے۔ہر عقل مند اس بات سے متفق ہے کہ امن و امان بہت بڑی نعمت ہے،اسکا زوال بہت سے مسائل کو جنم دیتا ہے۔اپنے جان و مال،عزت و آبرو اور اہل خانہ کا تحفظ ہر شہری کا بنیادی حق ہے،جو اسے ریاست فراہم کر تی ہے، ملکی تعمیر وترقی کیلئے امن بنیادی حیثیت رکھتا ہے،اسی میں ذہنی سکون، اور حالات کی درستگی پنہاں ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں امن ومان ایک خواب بن چکا ہے،یہاں پر پولیس جس کی ذمہ داری عوام کے محافظ کی ہے،اسکے اہلکارامن کی دھجیاں اڑاتے اور دندناتے پھرتے ہیں،تلخ کلامی کو کسی کے قتل کا جواز نہیں بنایا جا سکتا ،گویا یہ ایک ریاستی ادارے کی طرف سے ریاستی رٹ کو چیلنج کیے جانے کے مترادف ہے۔سانحہ ساہیوال سے لیکر ماڈل ٹاﺅن تک پولیس کے بجائے مقتولین ہی کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوششیںجاری ہیں،ان سانحات کے اصل ملز موں کو کیفرکردار تک پہنچایا گیا ہوتا توآج اسلام آباد میں قانون کے محافظوں کے ہاتھوں نوجوان کا قتل نہ ہوتا،انھیں اس بات کا خوف ہوتا کہ انھیں ان گھناﺅنے جرم کی پاداش میں کیا سزا ملے گی۔کراچی میں رینجرز اہلکاروں نے ایک پارک میں نوجوان کو گولی ماری،جس کے بعد ان کے خلاف کیس چلا ،انھیں سزا ملی،بعد ازاں ان کی سزا معافی کے لیے صدر مملکت سے اپیل کی گئی،ہمارے ہاں ہمیشہ سے یہی رواج رہا ہے کہ جب کوئی بڑا جرم کا ارتکاب کرتا ہے تووہ اپنے سرمائے،طاقت یا اختیارات کے بل بوتے پر ریلیف لے لیتا ہے،یہ رواج خطرناک ہے،اس سے نہ صرف معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوگا بلکہ قانون کی خلاف ورزیاں بڑھتی جائیں گی۔سانحہ ساہیوال میں کیا ہوا ؟ وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔دن دیہاڑے بچوں کے سامنے ان کے والدین پرگولیاں برسائی گئیں،بعد ازاں ملزمان شک کی بنا پر بری ہو گئے ،گو اس کیس میں ریاست نے مدعی بننے کا اعلان بھی کیا لیکن اسکے بعد جو کچھ ہوا،و ہ بھی عوام کے سامنے ہے۔سانحہ ساہیوال پر وزیراعظم عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے ایک پیغام میں کہا تھا: کہ سہمے ہوئے بچوں،جن کے والدین کو ان کی آنکھوں کے سامنے گولیوں سے بھون ڈالا گیا،کو دیکھ کر ابھی تک صدمے میں ہوں،اپنے بچوں کے بارے میں ایسی صدمہ انگیز صورتحال کے تصور ہی سے والدین پریشان ہوجائیں گے،ریاست اب ان بچوں کا ذمہ لے گی اور ان کی مکمل دیکھ بھال کرے گی،ساہیوال واقعے پر عوام میں پایا جانے والا غم و غصہ بالکل جائز اور قابلِ فہم ہے۔ میں قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ قطر سے واپسی پر نہ صرف یہ کہ اس واقعے کے ذمہ داروں کو عبرت ناک سزا دی جائے گی بلکہ میں پنجاب پولیس کے پورے ڈھانچے کا جائزہ لوں گا اور اس کی اصلاح کا آغاز کروں گا۔اس سانحہ کے بعد نہ تو پولیس کے ڈھانچے کا جائزہ لیا گیا نہ ہی پولیس کی اصلاح کے لیے کوئی پروگرام شروع ہوا۔پولیس کوصحیح معنوں میں عوام کا محافظ ادارہ ہونا چاہیے،جیسا کہ ترقی یافتہ ممالک میں اس کا کردار متعین ہے۔پولیس کو چاہیے کہ پاکستانی عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی رقم کے صلے میں عوام کو مثالی خدمت فراہم کرے۔معاشرے کی ترقی کے لیے سب سے اہم چیز امن و امان کی صورتحال کو بہتر کرنا ہے،جو اس وقت پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے بھی ضروری ہے،اسے بہتر کرنے کے لیے پولیس کے محکمے پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائے نا کہ انہیں مارتی پھرے۔اس وقت ملک میں پولیس کلچر میں انقلابی اصلاحات اور اس میں سب سے بڑھ کر تھانہ کلچر میں تہذیبی تبدیلی کی ضرورت ہے۔عوام کو تھانے میں ہی انصاف ملنا چاہیے۔ پولیس کا فرض ہے کہ فرض شناسی اور نظم وضبط کا مظاہرہ کرے۔پولیس اہلکاروں کو ہر طرح کی خارجی ترغیب کو رد کر کے اپنے فرائض منصبی احسن طریقے سے ادا کرنا چا ہیئں۔پولیس کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ریاست پاکستان کی ملازم ہے۔کیاقانون صرف ان کے لیے ہے جو کمزور اور لاچار ہیں،خود کو اشرافیہ کہنے والوں پر قانون کا اطلاق نہیں کیا جاتا۔معاشرے میں موجود اس بڑی خلیج کو پاٹنے کی ضرورت ہے۔ پولیس اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ پولیس اگر ذمہ داری کا مظاہرہ کریگی تو ہی ملک میں امن وامان قائم ہو گا ،لیکن اگر پولیس خود قانون توڑے گی تو عام آدمی سے کیسے توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرے گا۔اسلام آباد میں نوجوان کے قتل کو ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر لینا چاہیے ،وفاق میں ہی اگر قانون فافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی ایسی ہو گی تو پھر باقی صوبوں کا تو اللہ ہی حافظ ہے،اس لیے وزیراعظم پاکستان اس کیس کو خود دیکھیں۔اسی کیس کو بنیاد بنا کر پولیس سسٹم کو بہتر بنایا جائے،جو مجرم ثابت ہو اسے سزا دی جائے۔ویسے بھی وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اعلان کیا تھا،وہ پولیس سسٹم کو مثالی بنائیں گے،اب وقت ہے کہ اپنے وعدے ایفا کیے جائیں تاکہ خلق خدا کو حقیقی تبدیلی کا احساس ہو سکے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here