روشن آپا!!!

0
138
انصار الرحمن
انصار الرحمن

 

 

ہمارے ملنے والوں میں ایک خاتون تھیں۔ ان کو لوگ روشن آپا کہتے تھے۔ لوگ ان سے بڑی عزت اور احترام سے بات کرتے۔ وہتھی بھی ایسی ہی۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا‘ چلنا پھرنا بہت ہی پیارا تھا۔ باتیں کرتیں تو ایسے محسوس ہوتا جیسے کہ ان کے منہ سے پھول جھڑ رہے ہوں۔ ہم نے ان کو کبھی ڈانٹ ڈپٹ کرتے یا چیختے چلاتے نہیں دیکھا۔ ان سے مل کر بڑی خوشی ہوتی تھی اور ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے کہ وہ ہماری اپنی ہوں‘ ہمدرد اور خیرخواہ ہمارے گھر سے تھوڑے ہی فاصلے پر ان کا گھر تھا۔ خاصی بڑی کوٹھی تھی۔ خاصا بڑا باغ تھا۔ پھولوں کے پودے اور پھلوں کے درخت نظر آتے تھے جنہیں دیکھ کر ہی دل باغ باغ ہوجاتا تھا۔ کسی نے ان کا تذکرہ کیا اور کہا کہ ان سے ضرور ملنا۔ ان سے مل کر بہت خوشی ہوگی۔ بہت دین دار‘ سمجھ دار اور عقل مند خاتون ہیں۔ ہر ایک کی ہمدرد اور خیر خواہ میلاد شریف بہت پیارے انداز سے پڑھتی ہیں اور جب نعتیں پڑھتی ہیں تو ان کی آنکھوں سے مسلسل آنسوﺅں کی لڑی بہتی ہے اور جب دعا کرواتی ہیں تو شریک محفل زاروقطار رو رو کر رب العاجلمین سے دعا کرتی ہیں کہ ان سب کو سکون‘ چین اور راحت کی زندگی عطا فرمائیں اور رسول اکرمﷺ کے ارشادات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دیں۔ اتنی اچھائیاں اور خوبیاں سننے کے بعد آخر ایک دن ہم ان کی طرف جا پہنچے۔ ہمارے ساتھ ہماری بیٹی تھی اور چھوٹا بیٹا‘ جو ابھی کالج میں پڑھ رہا ہے۔ ان کے میاں کا ذاتی کاروبار ہے۔ بیٹا اور بہو ساتھ رہتے ہیں۔ ہم دونوں ان سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ ہم سوچنے لگے کہ ہم دونوں اب تک کہاں تھے۔ روشن آپا کہنے لگیں کہ میں بھی سکول نہیں گئی۔ اماں مجھ کو گھر میں ہی سپارہ اور اردو پڑھاتی تھیں‘ جب بھی سینے سلانے یا کھانا پکانے کا پروگرام ہوتا تو مجم کو اپنے ساتھ لگا لیتیں۔ میں جب بڑی ہوئی تو اماں نے اپنے نواسے کے ساتھ میرا رشتہ طے کردیا۔ وہ نوجوان شروع ہی سے دین دار‘ نیک اور ملنسار تھدا۔ ہمیشہ عزت اور احترام سے پیش آتا۔ کبھی چیخ و پکار یا لڑنے جھگڑنے کی نوبت ہی پیش نہیں آئی۔ روشن آپا گھر کے ہر کام میں ایکسپرٹ تھیں۔ ہر کام آسانی سے جلدی جلدی کرلیتی تھیں۔ ہر قسم کے کانے پکا لیتی تھیں۔ حلوے کھانے ہوں یا مٹھائیاں‘ سب ہی کچھ تو ان کو آتا تھا۔ باجرہ کی روٹی ایسی پکاتی تھیں کہ مدتوں یاد رکھا جائے۔ کڑھی ایسی شاندار پکاتی تھیں کہ پیٹ بھر کر کھا لیں اور انگلیاں چاٹتے رہیں۔
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ ایک خاتون ان سے ملنے کیلئے آئیں۔ وہ اپنے گھر کے حالات بیان کرتے ہوئے زار و قطار رونے لگیں اور کہنے لگیں کہ ان کا شوہر بہت بدسلوکی کرتا ہے اور کبھی کبھی ہاتھ بھی اٹھا لیتا ہے۔ ان کے ماں باپ کی کوئی عزت نہیں کرتا۔ توہین آمیز کلمات میں ان کا تذکرہ کرتا ہے۔ روشن آپا نے اس کو گلے سے لگایا اور کہا کہ بہن صبر کرو۔ برداشت سے کام لو۔ پوری توجہ اور فکر سے شوہر کی خدمت کرو۔ کبھی بھی اس کے والدین کے (جاری ہے)
متعلق کوئی توہین آمیز لفظ استعمال نہیں کرنا۔ اپنے چھوٹے بچوں کا خیال رکھو اور جہاں تک ہوسکے ان کے سامنے اپنے میاں سے بحث مباحثہ اور تکرار نہ کرنا ورنہ بچے کسی کی نہیں سنیں گے اور بدتمیز ہوجائیں گے۔ صبر و شکر اور برداشت سے کام لو انشاءاللہ حالات ٹھیک ہوتے چلے جائیں گے۔ چند سال پہلے کی ہی بات ہے کہ بڑے اگر بچوں کو کوئی غلط بات کرتے دیکھتے تھے یا غلط جگہ کھڑا دیکھتے تھے تو منع کرتے تھے‘ سمجھاتے تھے۔ وہ عزت اور احترام کے ساتھ ان کی بات سنتے تھے۔ آج تو معاشرہ کا ماحول ہی تبدیل ہوچکا ہے۔ اچھی بات سننے کیلئے کوئی تیار نہیں ہے۔ فوراً بحث مباحثہ شروع کردیتے ہیں۔ ایک دن ان کی بہو سے بات ہوئی تو کہنے لگیں کہ امی میرا بہت خیال رکھتی ہیں۔ ہمیشہ محبت اور شفقت سے پیش آتی ہیں۔ دوسری ساسیں عام طور پر اپنی بہوﺅں میں خامیاں اور کمزوریاں تلاش کرکے ان کو ذلیل کرتی ہیں اور اپنے تھانیدار ہونے کا احساس دلاتی ہیں۔ یہاں ایسی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ یہ حقیت ہے کہ وہ میری ماں سے زیادہ میرا خیال رکھتی تھیں۔ ایسی ساسیں اس زمانے میں کہاں ہیں۔ یہ میری خوش نصیبی ہے کہ میں اس گھر میں بیاہ کر آئی ہوں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کا سایہ ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھے۔ میں نے ایک سہیلی سے ان کا تذکرہ کیا تھا۔ وہ کہنے لگی کہ اگر ایسی ساس میری ہو تو میں ان کے پاﺅں دھو دھو کر پیوں۔
روشن آپا کی طبیعت ٹھیک تھی۔ وہ بالکل بیمار نہیں تھیں۔ رمضان کے مہینے میں انہوں نے پورے روزے رکھے۔ 26ویں روزہ کو ان کو بخار چڑھا پھر تیز ہوگیا۔ انہوں نے اپنی بیٹی کو فون کیا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے‘ آ کر مل جاﺅ‘ ہوسکتا ہے کہ پھر ملاقات نہ ہوسکے۔ فون کرنے کے بعد وہ بار بار دروازہ کی طرف دیکھتی تھیں‘ لیٹی ہوئی تھیں۔ ان کی بیٹی روتی ہوئی آئی اور چمٹ گئی۔ داماد پاﺅں پکڑ کر بیٹھ گیا۔ انہوں نے مسکرا کر دونوں کی طرف دیکھا اور سب سے کہا کہ میرے جانے کا وقت آگیا ہے۔ اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہو یا کسی کا دل دکھایا ہو‘ کسی کی غیبت کی ہو‘ چغلی کھائی ہو‘ جھوٹ بولا ہو تو مجھے معاف کردینا۔ اس کے بعد انہوں نے کلیمہ طیبہ پڑھا اور آخرت کے سفر پر روانہ ہوگئیں۔ اللہ ان کی مغفرت کرے۔ ان کی قبر کو نور سے بھر دے۔ ہماری کتاب سکون اور صحت کا مطالعہ کرلیں۔ اس سے معلومات میں بہت اضافہ ہوگا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here