ریاست مدینہ کا حاکم!!!

0
198
مفتی عبدالرحمن قمر
مفتی عبدالرحمن قمر

 

مفتی عبدالرحمن قمر،نیویارک

حضرت سیدنا عمر بن خطابؓ حاکم مدینہ تھے، ایک رات اپنے خادم حضرت اسلمؓ کےساتھ گشت پر تھے ایک گھر کے قریب سے گزرے تو بچوں کے رونے کی آواز آرہی تھی آپؓ نے دستک دی اور پوچھا بچے کیوں رو رہے ہیں اور یہ دیگچی میں کیا پکا رہی ہو، خاوند نے کہا بچے بھوک سے رو رہے ہیں دیگچی میں کچھ نہیں ہے خالی پانی ہے تاکہ بچے مطمئن ہو جائیں کہ کچھ پک رہا ہے اور بچے تھک ہار کر سو جائیں یہ سن کر حضرت عمرؓ کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے، حضرت اسلمؓ کو ساتھ لیا بیت المال تشریف لائے ایک بورا لے کر اس میں کچھ آٹا، چربی، گھی، کھجوریں، کچھ کپڑے اور کچھ درہم ڈالے، حضرت مسلمؓ سے کہا اسلم یہ بورا میری کمر پر رکھ دو۔ حضرت اسلمؓ نے عرض کی حضور میں خاد ہوں نہ میں اُٹھا لیتا ہوں آپؓ نے فرمایا اگر قیامت کے دن میرا بوجھ اُٹھانے کا وعدہ کرو، تم اُٹھا لو وگرنہ میری کمر پر لاد دو، آخرت میں ان کی بھوک کا حساب میں نے دینا ہے تم نے نہیں۔ چنانچہ حضرت عمرؓ خود ہی بورا اُٹھا کر اس گھر تشریف لائے پھر دیگچی میں کچھ آٹا، گھی، کھجوریں ڈال کر اسے چولہے پر چڑھا دیا بار بار آگ بجھ جاتی پھونکیں مار مار کر جلاتے حضرت اسلمؓ فرماتے ہیں میں نے دیکھا آپؓ کی داڑھی سے دھواں نکل رہا ہے آنکھوں سے پانی نکل رہا ہے یہاں تک کہ کھانا پک گیا پھر اپنے ہاتھوں سے کھانا نکال کر بچوں کو کھلانا شروع کر دیا یہاں تک کہ بچوں کا پیٹ بھر گیا۔ باہر نکل کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے انتہائی تواضع اور عاجزی کےساتھ مجھ پر ایسا رعب طاری ہوا کہ پوچھ بھی نہ سکا۔ کہ آپ اس طرح کیوں بیٹھ گئے ہیں چونکہ میں خادم تھا مجھ سے کچھ پوشیدہ نہ تھا ڈر کے مارے کھڑا رہا بچوں کا جب پیٹ بھر گیا تو انہوں نے کھیلنا شروع کر دیا ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوئے جا رہے تھے جب بچوں کو کھیلتے کودتے ہنستے مسکراتے ہوئے دیکھا تو کھڑے ہو گئے اور مجھ سے کہا اسلم تم جانتے ہو کہ میں اس طرح گھٹنوں کے بل کیوں بیٹھ گیا تھا میں نے کہا نہیں حضرت عمرؓ نے فرمایا میں نے ان بچوں کو روتے ہوئے دیکھا تھا مجھے اچھا نہیں لگا، کہ جن بچوں کو میں نے روتے ہوئے دیکھا تھا ان کو ہنستا مسکراتا ہوا نہ دیکھوں جب بچے ہنس مسکرا رہے تھے میں اللہ سے دعا کر رہا تھا کہ مالک میری کوتاہی مجھے معاف کر دے کہ میں مخلوق خدا کی صحیح خدمت نہ کر سکا حضرت اسلمؓ فرماتے ہیں کہ اب میری آنکھوں میں آنسو آگئے تھے یہ کیسا حاکم ہے جو سارا سارا دن مخلوق خدا کی خدمت کرتے ہیں روزانہ رات کو مجھے ساتھ لے کر گشت کرتے ہیں۔ غریبوں کی مدد کرتے ہیں کسی پر ظاہر بھی نہیں ہونے دیتے کہ میں ریاست مدینہ کا حاکم ہوں عام آدمی کا بھیس بدل کر خدمت کرتے ہیں سو اے میرے مسلمان بھائیو ہم غیروں کی مثالیں کیوں دیتے ہیں ہماری اپنی مثالیں انے والی نسلوں کو بتاﺅ کہ ہم کیسے تھے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here