سیاسی گند اور میڈیا!!!

0
593
جاوید رانا

 

جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو

جس وقت ہم یہ کالم لکھ رہے ہیں، پاکستان کے سینیٹ الیکشن کے انعقاد میں صرف ایک دن رہ گیا ہے جبکہ یکم مارچ کو عدالت عظمیٰ نے صدارتی آرڈیننس پر اپنی رائے کے حوالے سے فیصلہ صادر کر دیا ہے کہ سینیٹ الیکشن سیکرٹ بیلٹ سے ہی ہوگا۔ پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ 4-1 کی اکثریت سے سامنے آیا، جسٹس آفریدی نے اختلافی نوٹ میں صدر مملکت کے آرڈیننس پر رائے کے ریفرنس کو آئین و قانون کےخلاف قرار دیتے ہوئے اسے ناقابل سماعت قرار دیا اور اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنی رائے دیتے ہوئے جہاں سینیٹ الیکشن میں سیکرٹ ووٹ کو لازمی قرار دیا ہے الاکہ پارلیمنٹ آرٹیکل 26 میں ترمیم منظور کرے۔ ساتھ ہی فیصلے میں الیکشن کمیشن کو ایڈوائس کرتے ہوئے انتخاب کے انعقاد کو شفاف و منصفانہ بنانے کو یقینی بنانے اور تمام اداروں کو الیکشن کمیشن سے بھرپور تعاون کی ہدادیت کر دی ہے عدالت عظمیٰ نے 1967ءکے ایک فیصلہ کے تناظر میں یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ” سیکریسی“ حتمی (Absolute) نہیں ہو سکتی ہے۔ سینئر سیاستدان اور آئینی و قانونی ماہر بیرسٹر اعتزاز احسن کے بقول عدالت عظمیٰ نے ساری ذمہ داری الیکشن کمیشن پر ڈال دی ہے جبکہ جسٹس (ر) شائق عثمانی کی رائے میں عدالت عظمیٰ نے آئین کی روح کے مطابق واضح فیصلہ دیا ہے کہ آئینی ترامیم کے بغیر اوپن بیلٹ اور ووٹ کی نشاندہی ناممکن ہے۔ ابھی مختصر فیصلہ ہی آیا ہے، تفصیلی فیصلہ آنا باقی ہے مگر حالت یہ ہے گویا فیصلے کے حوالے سے بھونچال برپا ہے۔ حکومتی حلقے اسے اپنی فتح قرار دیتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے Absolute کی توضیح و تشریح کر رہے ہیں جبکہ اپوزیشن صدارتی آرڈیننس کی منسوخی اور حکمرانوں کی شکست قرار دے رہی ہے۔ اس حوالے سے میڈیا اور بزعم خود ماہرین اپنے اپنے ممدوح کے سیاسی حوالوں سے تشریح کو بقول اعتزاز احسن نا سلجھنے والا الجھاوا بنا رہے ہیں۔
پاکستان کی سیاست میں گند اور منافرت کے فروغ میں جہاں ہماری سیاسی اشرافیہ کا بوجوہ کردار ہے وہیں میڈیا اور خود ساختہ تجزیہ کاروں نے عجیب طوفان کھڑا کیا ہوا ہے۔ میڈیا کی سیاسی وابستگیاں امریکہ و دیگر ممالک میں بھی واضح ہیں۔ گزشتہ امریکی انتخابات میں بھی میڈیا کی سیاسی تقسیم واضح نظر آئی کہ CNN ڈیمو کریٹس کی حمایت میں تھا تو FOX ریپبلیکنز کے حق میں پروپیگنڈہ کر رہا تھا لیکن سیاہ کو سفید بنانے کی کوشش میں کوئی نہ تھا۔ اس کی واضح مثال کیپیٹل ہل پر ریپبلیکنز کے حملہ کے بعد امریکی میڈیا کی بلا تخصیص ٹرمپ اور حملہ آوروں پر تنقید و مذمت کی صورت میں سامنے آئی۔ امریکی آئین و قوانین اور اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے بھی امریکی میڈیا کا طرز عمل اور رویہ کبھی منفی نہیں ہوتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں میڈیا کا رویہ اور مطمع نظر واضح طور پر یہ نظر آتا ہے کہ وہاں صحافتی اقدار، ضابطوں اور غیر جانبداری کو پسِ پُشت ڈال کر وہ ابلاغ کیا جاتا ہے جو ان کے سیاسی سرپرستوں، ممدوحین کے حق میں جائے خواہ اس میں صداقت یا حقیقت نہ ہو۔ اس کھیل میں محض چند اینکرز، تجزیہ کار یا مبصرین ہی نہیں تقریباً سارے ہی چینلز شامل نظر آتے ہیں۔ بعض چینلز تو اپنے سیاسی آقاﺅں کے ایجنڈے کی تشہیر اور برتری کے ہنگام میں اس حد تک چلے جاتے ہیں جو ملکی سلامتی و عوامی مفادات کےخلاف ہوں حتیٰ کہ وہ ریاستی اداروں پر انگشت نمائی اور ہرزہ سرائی سے باز نہیں آتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ میڈیا کے وہ ہرکارے جو بوجوہ حکومتی ترجمان کا تاثر دینے میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کا کردار ادا کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں وہ مخالفین کے صحیح نقطہ¿ نظر کو بھی غلط ثابت کرنے اور حکومتی کمزوریوں و خامیوں کو اس کی کامیابی و سرخروئی ثابت کرنے میں زمین آسمان کے قلانے ملانے سے گریز نہیں کرتے ہیں۔ آخر یہ سب کچھ کیوں ہے؟ کیا یہ سب آزادانہ صحافتی کردار کی ادائیگی کیلئے ہوتا ہے یا اس کے پیچھے وہی مفاداتی مقاصد ہوتے ہیں جو کرپٹ سیاستدانوں، انتظامی و کاروباری اشرافیہ کے ہوتے ہیں۔
میڈیا کے فروغ میں جنگل کی طرح پھیلتے ہوئے چینلز یقیناً اپنی ریٹنگ کے چکر میں بازی لے جانے میں حق بجانب سہی لیکن کیا اس کا راستہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے اور پگڑیاں اُچھالنے سے ہی بنتا ہے؟ اب تو حالت یہ ہے کہ یہ اینکرز اس بات کے دعویدار بھی ہیں کہ جن حالات و واقعات کا حکومتی و مخالف سیاسی اشرافیہ یا ریاستی و مملکتی ارباب حل و عقد کو بھی پتہ نہیں یہ اینکرز انہیں اس طرح افشاءکرتے ہیں گویا یہ حقائق یا فیصلے ان سے مشاورت اور تبادلہ¿ خیال کے بعد ظہور پذیر ہوئے یا ہونے ہیں۔ ایک امیر اینکر نے تو یہاں تک انکشاف کر دیا کہ یوسف رضا گیلانی کی سینیٹ امیدواری کا زرداری کو علم تھا نہ ان کے اہل خانہ کو، اس حوالے سے فیصلہ کرنے والوں نے انہیں آگاہ کر دیا تھا۔ ایک اور رُشد و شرافت کے پیکر کو یہ فخر ہے کہ سرکار والا مدار کے فیصلوں، معاہدوں و سیکرٹ دستاویزات کی تفصیل خود صاحبان اقتدار کے علم میں نہیں ہوتی، وہ اسے افشاءکرتے ہیں۔ صبر و شکر کے حامل ایک صاحب اس اظہار کے نقیب بنے ہوئے ہیں کہ وہ مقتدرین کے رازدار ہیں یہ تو محض چند مثالیں ہی ہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ آپ کرنٹ افیئرز کا کوئی بھی پروگرام دیکھنے بیٹھیں تو یہی احساس ہوتا ہے کہ سارا پروگرام ایک متعینہ ایجنڈے کے تحت ترتیب دیا گیا ہے۔ کسی ایک سیاسی دھڑے کی حمایت، مخالف کی تکذیب، ریسرچ و تحقیق کے حوالے سے ایسے ایسے انکشافات جن سے تنازعہ و تفریق کے ہوا ملے۔ پروگراموں میں متحارب فریقوں اور مبصرین کو اختلافی خلجان کی انتہائی حدوں پر پہنچا کر پروگرام بے نتیجہ ختم کر دیئے جاتے ہیں اور آف کیمرہ اپنی کارستانیوں پر ستائش باہمی کی محفلیں سجائی جاتی ہیں۔
ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اس بے ہنگم سلسلے میں بہت سے سنجیدہ اور سینئر میڈیا پرسنز ابھی بھی صحافتی اقدار و اخلاقیات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنا صحافتی کردار بخوبی انجام دے رہے ہیں لیکن شور و شر اور چسکے بازی کے اس ہنگام میں ان کی کیفیت نقار خانے میں طوطی کی آواز جیسی ہے جبکہ پروگراموں کو مزیدار و تیکھا بنانے اور اپنے ممد و حین کے قصیدے پڑھنے والوں کے افعال و ارشادات نہ صرف سیاسی دھارے میں تلخیوں کا سبب بن رہے ہیں بلکہ عوام میں بھی تفریق و خلجان کا سبب بن رہے ہیں۔ میڈیا کا اصل فریضہ ملک و ملت کی بہتری و توقیر کی عکاسی ہے نا کہ تفریق و انتشار کا پھیلاوا، میڈیا کا ایک رکن ہونے کے ناطے ہماری یہ عرض صرف اس لئے ہے کہ میڈیا اور میڈیا والوں کا اعتبار برقرار رہے کیونکہ میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہے اور اگر ایک ستون بھی متزلزل ہو تو پوری عمارت خطرے میں ہوتی ہے۔
مانو نہ مانو جان جہاں اختیار ہے
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here