رونق دنیا!!!

0
847
رعنا کوثر
رعنا کوثر

 

رعنا کوثر

اسی دنیا میں انسان کا وجود ایک ایسی نعمت ہے جس نے دنیا کی رونق کو قائم کیا ہوا ہے۔اسی لیے انسان خوب مزے بھی کرتا ہے۔جب ایک بچہ اس دنیا میں آتا ہے تو وہ صرف اس وقت روتا ہے جب اس کو بھوک لگ رہی ہوتی ہے۔یا وہ کسی درد میں مبتلا ہوتا ہے جیسے کے پیٹ کا درد اور کوئی شکایت ہو۔ورنہ وہ سب کچھ بھلا کر نہیں رہا ہوتا ہے ہاتھ پاﺅں مارتا ہے۔اپنے آپ میں مست ہسنتا مسکراتا رہتا ہے۔پھر وہ چلنے پھرنے لگتا ہے تو بھی اپنی معصوم خواہشات کے ساتھ رہتا ہے۔اور چھوٹی چیزوں میں ہی اپنی خوشی ڈھونڈ لیتا ہے۔یہ تو والدین کی خواہشات ہوتی ہیں کے بچے کے لیے اچھے سے اچھے کھلونے لے کر آئیں۔ورنہ بچے ہر اس چیز سے بہل جاتے ہیں۔جہاں ان کا ذہن بٹ جاتا ہے اور خوشی محسوس کرتا ہے چاہے وہ پلاسٹک کے کھلونے ہوںیا گھر میں کوئی مٹی کا برتن۔جب یہ بچے بڑے ہوتے ہیں تو ان کے ذہن آبدلتے ہیںاور یہ دنیا کی قدروں کو پہچانتے ہیںاور پھر ان کے رویے بدلنے شروع ہوتے ہیں۔اب آج کل کا رویہ دیک لیں لوگ بہت کم خوش ہونے کی باتیں کرتے ہیں۔خاص طور سے وہ لوگ جو عمر کا ایک حصہ گزار چکے ہیں۔اب حالات کو دیکھتے ہوئے ان کو لگتا ہے کے دنیا بہت خراب ہوچکی ہے۔دنیا تباہی کی طرف جارہی ہے۔دنیا میں نئی تبدیلیاں آرہی ہیں۔جن کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے سے الگ ہو رہے ہیں۔خلوص ختم ہوگیا ہے لوگوں کا ملنا جلنا ختم ہوگیا ہے۔سب فون میں کھوئے ہوئے ہیںاور بھی بہت ساری باتیں ہیں جن پر لوگ تشویش کا شکار ہیں۔جب کے نئی نسل ان تبدیلیوں پر بہت خوش ہے ہر وقت فون ان کے لیے انتہائی دلچسپی کا سامان بن چکا ہے وہ اس پر نئے تجربات کر رہے ہیں۔اور بہت خوش ہیں۔بہت کم عمر لڑکے نئی دریافت کرکے خوب پیسے کما چکے ہیں۔نوجوان نسل نئے تجربات کی بات کرتی ہے۔جب سے ان نسلوں نے آنکھ کھولی ہے وہ نئی ٹیکنالوجی کے عادی ہوگئے ہیںاور یہ ان کے لیے کوئی نئی بات نہیں رہی۔جب دنیا میں بجلی آئی تھی تو اس وقت کے لوگ اسی کے استعمال کے عادی نہیں تھے اور استری تک نہیں لگا سکتے تھے۔ریڈیو کے بٹن بدلنا اور سوئی گھمانے کے لیے وہ اس وقت کی نئی نسل کی طرف دیکھتے تھے۔ٹی وی کی دنیا نے لوگوں کی توبہ اتنی زیادہ اپنی جانب مرکوز کر لی تھی کے لوگوں نے گلی محلے میں بیٹھنا اور ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا بہت کم کردیا تھا۔جب ہوائی جہاز اور گاڑی بنائے گئے تو لوگوں کو یقین نہیں آرہا تھا کے وہ گدھے گھوڑے اور اونٹ کے علاوہ بھی کوئی سواری استعمال کرسکتے ہیں۔بس یوں ہی تبدیلیاں جہاں پرانی نسل کو حیران اور پریشان کرتی ہیں۔نئی نسل کے لیے بڑی عام سی چیز ہوتی ہیں۔وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتے ہیں کے وہ کون سی نسل تھی جو اندھیرے میں رہتی تھی۔گھنٹوں کے فاصلے دنوں میں طے کرتی تھی۔پرندوں کے ذریعے خطوط بھیجے جاتے تھے۔
یہ سب مثالیں یہ ثابت کرتی ہیں کے دنیا کو اللہ کی رضا سے آگے بڑھتے رہنا ہے۔اور ایک بچہ اس دنیا میں آکر اس بات کی گواہی بھی دیتا ہے بچے کے چہرے پہ کبھی مایوسی نہیں ہوتی اس لیے کے اسے نئے تجربے کرنے میں خوف نہیں آتا۔وہ کبھی مایوس نہیں ہوتا۔اس کے آگے دنیا تجربے کی جگہ ہے بڑے ہو کر دنیا کی ہر تبدیلی لوگوں کو خوف زدہ کردیتی ہے۔معلوم نہیں کیوں؟
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here