خبرناک خطرناک بن گیا!!!

0
511
حیدر علی
حیدر علی

 

حیدر علی

قارئین حضرات ! آسمان صحافت کی جو سب سے خطرناک خبر پاکستان کے عوام کو 2021 ءمیں سنائی گئی وہ یہ ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا یعنی جنگ و جیو کراچی کے دفتر پر سینکڑوں کی تعداد میں احتجاجیوں نے حملہ بول دیا، اُس وقت جنگ و جیو کے ایگزیکیٹو باڈی کا اجلاس کانفرنس روم میں منعقد ہورہا تھا، جس میں یہ نکتہ زیر غور تھا کہ کیوں نہ روزنامہ جنگ کو بند کردیا جائے اور اِس سے منسلک صحافیوں کو فلمی یا ناٹک کے مکالمہ لکھنے کی تربیت دے کر فارغ کردیا جائے جو مہاجر صحافی تا ہنوز وہاں موجود ہیں اُنہیں حلیم اور نہاری فروخت کرنے کے کاروبار شروع کرنے کا سنہرا موقع فراہم کیا جائے کیونکہ اِن صحافیوں کا ہمیشہ سے یہ گلہ رہا ہے کہ وہ تو بس بھی نہیں چلا سکتے ہیں، وہ تو بچوں کو پڑھا بھی نہیں سکتے ہیں، تو پھر آخر وہ کر کیا سکتے ہیں؟ محض معاشرے میں نفرت کی بیج بو سکتے ہیں، لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی پر اُکسا سکتے ہیں جس طرح اِسی اخبار جنگ نے 1972 ءمیں مرحوم رئیس امروہوی کے قطعہ کا ایک مصرع ” اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے “ کو اپنے اخبار کی شہہ سرخی لگا کر صوبہ سندھ کو آگ کی دریا میں دھکیل دیا تھا، جبکہ حقیقت میں نہ ہی اُردو زبان کو اور نہ ہی اِسکے بولنے والوں کو صوبہ سندھ میں کوئی خطرہ لاحق تھا، یہ مذموم حرکت بلا شبہ علیل ذہنیت کی علامت تھی،بہرکیف کانفرنس میں روزنامہ جنگ کے ایڈیٹر کے یہ تحفظات روز روشن کی طرح عیاںتھے کہ اُن کے اخبار کو شعبہ اشتہارات کے منتظمین ہائی جیک کرتے جارہے ہیں، اخبار میں خبریں کم اور اشتہارات کی بھر مار ہوتی ہیں حتی کہ صفحہ اول میں تین چوتھائی اشتہارات اور صرف ایک میں خبریں لگائی جاتی ہیں جس میں بیشتر بھارتی فلمی اداکاروں کی مصروفتات کے بارے میں تذکرہ ہوتا ہے، کھیل کی خبریں شائع کرنے میں روزنامہ جنگ بھارت اور بنگلہ دیش کے بھی پیچھے رہ گیا ہے یہی وجہ ہے کہ جولوگ 20 روپے کا ایک اخبار خریدتے ہیں، وہ اِسے دیکھ کر پاگل ہوجاتے ہیں روزنامہ جنگ سے اُن کی دلچسپی دس منٹ میں مفقود ہو جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ بیشتر قارئین کا کہنا ہے کہ روزنامہ جنگ اُن سے 20/ روپے لینے کے بجائے اُنہیں 50/ روپے اُن کے اخبار کو پڑھ کر ذہن ماری کرنے کا حرجانہ ادا کیا کرے، لوگوں کو اخبار جنگ سے اتنا زیادہ بغض ہوگیا ہے کہ وہ اپنا اخبار کیا اکثر وبیشتر راہگیر کے ہاتھ سے بھی اخبار چھین کر اُس کا پرزہ چاک چاک کر دیتے ہیں۔ایگزیکیٹو باڈی کی کاروائی جاری تھی کہ باہر سے شور شرابا کی آواز سنائی دی ، ایسا معلوم ہوا کہ جیسے کوئی زلزلہ آگیا ہو، جنگ اخبار کے ایڈیٹر نے فرمایا کہ احتجاجی نوجوان وزیراعظم عمران خان کے خلاف نعرے بازی کر رہے ہیں، اُن کے نائب چمچے یعنی اسسٹنٹ ایڈیٹر نے فرمایا کہ نہیں نہیں لوگ جنگ اخبار کی حمایت میں قصیدہ خوانی کر رہے ہیں، اِسی دوران ایک شخص بھاگتے ہوے کانفرنس روم میں داخل ہوا، اُس کی ناک سے خون بہہ رہا تھا، اُس نے چیخ کر کہا کہ غضب ہوگیا غضب ہوگیا، دہشت گردوں نے جنگ کے دفتر پر حملہ کردیا ہے کوئی باہر نہ جائے ورنہ سر پھٹول کا زخم برداشت کرنا پڑیگا جنگ کے ایگزیکیٹو آفیسر نے اُس شخص کے بازو کو پکڑ کر پوچھا کہ سچ سچ بتا¶، کیا واقعی میں دہشت گردوں نے حملہ کر دیا ہے، ویسے ایف آئی آر تو یہی درج ہوگی لیکن کیا سچ میں وہ دہشت گرد ہیں؟ سر جی ! وہ دہشت گرد نہیں ہیں بلکہ سندھی قوم پرست ہیں جو جنگ و جیو کے خلاف گالیاں نکال رہے ہیں ، اُن کا غم و غصہ ، اُن کی ناراضگی جیو چینل کے خلاف ہے کیونکہ اِس چینل نے سندھیوں کے خلاف یہ کیوں کہا کہ سندھی لوگ بھوکے اور ننگے ہوتے ہیں، ” ہم لوگ آزادی صحاف کے علمبردار ہیں، ہم جس قوم کے خلاف جو چاہیں وہ کہہ سکتے ہیں، ہمارا کوئی کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا ہے،“ جنگ کے ایگزیکیٹو آفیسر نے کہا”تو پھر باہر نکل کر اُن سے مقابلہ کیجئے اور جوتے کھائیے “جنگ کے ایک کارکن نے غصے میں جواب دیا،” ہم باہر اُس وقت نکلیں گے جب پولیس آئیگی اور پولیس پوری طرح ہماری حفاظت کرے گی،گھبرانے کی کوئی بات نہیں حملے کے بعد جنگ و جیو کی آمدنی میں مزید اضافہ ہوجائیگا ‘۔
”وہ کیسے ؟“ جنگ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر نے پوچھا” گلی، کوچے، کیفے اور چانڈو خانہ میں ، جہاں جہاں ہمارا اخبار جاتا ہے ، یہ اعلان کروادیجئے کہ جس کسی شخص کو جنگ اخبار میں اپنا نام شائع کرانا ہے وہ جنگ و جیو پر حملے کے خلاف فوری طور پر مدمتی بیان لکھ کر بھیج دے اُس کا بیان من و عن شائع ہوگا، اور اِس کارنامے سے ہمارے اخبار اور چینل کی شہرت میں دِن دونی رات چوگنی اضافہ ہوگا،ہم اپنے اشتہار کے نرخ کو بھی دوگنا کر دینگے اور ماضی میں جنگ و جیو نے بینک سے قرض لی ہوئی اربوں روپے کی رقم کو جو دیوالیہ قرار دے کر معاف کروایا ہے ، وہ اِس دفعہ ہم صرف اپنے اشتہارات کو فروخت کر کے ادا کر دینگے، بشرطیکہ کوئی اور پھڈا نہ ہوجائے“ جنگ و جیو کے چیف ایگزیکیٹو آفیسر نے کہا کہ دوسرے دِن ہزاروں کی تعداد میں مدمتی بیان آنا شروع ہوگئے۔ کراچی کے مرزا ندیم بیگ نے اپنے بیان میں کہا کہ جنگ و جیو چینل پاکستان کی آن ہے شان ہے، ہمارے ابّو کو تو اُردو پڑھنے بھی نہیں آتی تھی، وہ پٹاپٹ انگریزی بولا کرتے تھے، اُنہوں نے جنگ اخبار پڑھ پڑھ کر اردو لکھنا اور پڑھنا سیکھا اور ہماری امی روزانہ کے نت نئے فیشن کو جنگ فیشن کے صفحہ دیکھ کر اپناتی ہیں، اب دوسری عورتیں اُنہیں دیکھ کر حسد و جلن کرتیں ہیں ، یہ سارا کمال جنگ و جیو کا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here