کامل احمر
رباعی،منظوم شاعری کا اہم جز ہے بہت سے شعراءنے اس میں نام کمایا ہے اور اردو شاعری کو حسن بخشا ہے جیسا کہ سب جانتے ہیں جوش ملیح آبادی، فراق گورکھپوری نے اپنا سکہ جمایا ہے۔لڑکپن میں میٹرک میں انگلش کے کورس میں انگریزی کتاب میں رعباعیات عمرخیام پڑھی جس کا ٹوٹا پھوٹا ترجمہ جو فارسی سے انگریزی میں کیا گیا تھا اردو میں اس طرح ہے
راز ازل کو نہ تو جانے نہ میں
بازو کے نیچے نان اور شراب سے بھرا جام ہو
اس پہیلی کا جواب نہ تو جانے نہ میں
اور میرے ایک ہاتھ میں شاعری کی کتاب ہو
پردے کے پیچھے ہو میں اور تو کی بات
اور تو پاس بیٹھی گا رہی ہو ویرانے میں
جب پردہ گر جائے نہ تو باقی نہ میں
تو ویرانہ بھی فردوس کا نظارہ ہو
کہا جاتا ہے عمر خیام کی شاعری میں فلسفہ تھا خدا تھا علم نجوم تھا ہوگا آج کا کالم ہم نے نعتیہ شاعری کے تعلق سے مشہور اور مقبول نامور شاعر جناب امان خان دل کی نئی کتاب قطعات دل اور رعباعیات کے لئے وقف کیا ہے جس کا مطالعہ ہم کئی دن سے کر رہے تھے۔
جیسا کہ ہم نے بتایا جوش ملیح آبادی نے رباعیات کے باب میں بہت نام کمایا ہے۔لڑکپن میں ویڈیو پر سنی انکی ایک رباعی جو یوم عاشورہ کے دن گھر گھر میں سنائی جاتی ہے اور آپ کو بھی اتفاق ہوگا۔
کیا صرف مسلمان کے پیارے ہیں حسین
چرخ نوع بشر کے تارے ہیں حسین
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
ہم نے قطعات سے پہلے رباعی کو پہلے اس لئے لپا کہ دل صاحب نے پہلی بار شاید اس پر طبع آزمائی کی ہے اور بہت خوب کی ہے تو انکی یہ رباعی بھی پیش کردیتے ہیں۔
سبط نبی میں دیکھئے عظمت حسین کی
بے مثل ہے جہاں میں شہادت حسین کی
ہر دور کے یزید کو دینی ہے جو شکست
ہر دور میں رہے گی ضرورت حسین کی
دل صاحب نے ایک بھرپور تاثر چھوڑا ہے،ممکن ہے کچھ بزرگ شعراءکو جو امریکہ کے اردو لکھنے پڑھنے اور بولنے والے حلقوں میں تو اس رنگ میں انکا یہ قطعہ اپنے نبی کی شان میں ہے۔
وہ نبی جو ہے محبوب، رب العُلی
اس نبی سے محبت بڑی بات ہے
قرب حاصل خدا کا بھی ہو جائے گا
شاہ دین کی اطاعت بڑی بات ہے
اسی رنگ میں رباعی بھی ملاحظہ ہو عرب تا ہے عجم بھی آپ کے اقدار کی خوشبو
دو عالم میں بھی ہے پھیلی ہوئی کردار کی خوشبو
میری نعتوں کا گلدستہ مرے مدفن کی ہو زینت
کہ آئے روز محشر تک مجھے سرکار کی خوشبو
لکھنے کے لئے ہمارے پاس بہت کچھ ہے اور اردو کا چراغ جو شعراءاور ادیب جلائے ہوئے ہیں۔انکو سلام اور ان کو بھی جو انکی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔یقین کیجئے شمالی امریکہ ایسے باصلاحیت اور نامور شعراءسے مالا مال ہے۔وہ اپنا حصہ ڈالتے ہیں تو ضروری ہے کہ ہم ان کا بغور مطالعہ کریں ایک دنیا چھُپی ملے گی اور آپ واہ واہ کہہ اٹھینگے یہاں اگر ہم نام گنوانا شروع کریں تو تو جگہ کی قلت سے ممکن نہ ہوگا میں اپنے دوستوں کا شکر گزار ہوں۔جن میں واصف حسین واصف، یونس شرئ، مشیر طالب ہیں اور طاہر خان کا جن کے منہ سے شعرسن کر مجھے شاعری پر بات کرنے کی اپچ ہوئی ساتھ ہی نیوز پاکستان کے مجیب لودھی جنہوں نے ہر موضوع پر لکھنے کا موقعہ دیا ہے۔بغیر کسی مداخلت کے یہ میر لئے اعزاز ہے آخر میں ہم لکھتے چلیں کہ امان خاں دل کی یہ نویں تخلیق ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے اس شاعری میںسب کے چہرے اور پاکستان میں جاری توڑ پھوڑ انتہا پسندی لوٹ مار میڈیا کی بے شرمیاں سب کچھ ملے گا یہ ضروری تھا کہ وہ رہ قطعہ اور رباعی کی نشاندہی کر دیتے تاریخ ڈال کر تو پڑھنے کے ساتھ یادداشت تازہ ہوجاتی یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ اس کی اشاعت بڑی خوبصورتی کے ساتھ ہے اور کتابت کی غلطیوں سے پاک انکی کتابوں کے نام لکھتے چلیں۔حرم تا حرم،شہ لولاک تخلیقات حمد ونعت، نعتیہ شاعری پر ہیں۔اور باقی انکی،سوانح حیات، سہرے کے پھول، سخن کی خوشبو، شوحی تحریک متاع سخن ہیںاور یہ سب اردو شاعری میں شمالی امریکہ کے تعلق سے تاریخ بنا چکی ہیں۔دل صاحب پہلے نیویارک میں تھے اور اب ہیوسٹن میں رہائش ہے۔امان خان دل کا تعلق بہار کے بعد کراچی سے ہے۔انہوں نے بھی ایک خوبصورت اور عظیم الشان شہر کو دیکھا تھا پرکھا تھا اور اب سیاستدانوں نے اجاڑ کر رکھ دیا کہ کہنا پڑتا ہے۔اور لکھنا پڑتا ہے میر تقی میر کے اشعار جیسے آپ کے رنگ میں لیں۔
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
اس کو فلک نے لوٹ کے برباد کردیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
مذکورہ بالاقطعہ میں لفظ عالم کو کراچی جانیں اور تیسرے مصرعے میں فلک کوPPPاورMQMجانیں اور یہ حقیقت ہے۔
یہاں ہم رباعی کے ضمن میں ایک اور نام لکھتے چلیں فراق گورکھپوری اور گنگاجمنی رنگ میں ایک رباعی
لہروں میں کھلا کنول نہائے جیسے
دوشیزہ صبح گنگنائے جیسے
یہ کومل روپ کا سہانہ پن آہ!
بچہ سوتے میں مسکرائے جیسے
اور رباعی کا اصل رنگ یہ ہی ہے امان خاں دل پر پاکستان کے بگڑتے اور بکھرتے حالات کا بے حد اثر ہے یہ رنگ انکی شاعری قطعات اور رباعیات میں بدرجہ اتم موجود ہے اور غور طلب ہے ملاخطہ ہو۔
احساس زیاں شہر کے میئر کو نہیں ہے
پانی میں کراچی کے ہیں گھر بار ابھی تک
اب صاحب منصب تو کراچی میں ہیں کافی
ہوتا جو صاحب کردار ابھی تک
سیاست دانوں کے تعلق سے یہ رباعی کیا خوب ہے
بغض عمران میں وہ شرام وحیال بھول گئے
طیش میں ہوش نہ تھا درس وفا بھول گئے
یاد توہین رہی کرو حسد یاد رہا
اس کی نفرت میں محبت کی ادا بھول گئے
اور جیسا کہ ہم نے لکھا ہے کہ دل صاحب نعتیہ شاعری کے لئے مشہور ہیں۔شمالی خود کو رباعی کا باوا آدم سمجھتے ہیں۔اعتراض ہو خیال رہے ہر چند کہ شاعری ہمارا میدان نہیں رہا ہے لیکن نقاد بننے کیلئے ن م راشد جمیل جالبی حسن عسکری ڈاکٹر ابولعیث صدیقی، فرمان فتح پوری یا شمیم حنفی بننا ہی ضروری نہیں یہ سب حضرات اس دور کے اردو ادب کے دیو ہیں۔اور جس دور میں ہم ہیں وہاں زیادہ غوروفکر کی بات نہیں ہم نے کبھی کسی بڑے شاعر کو کوئی دعویٰ کرتے نہیں دیکھا۔اور امان اللہ دل کو ہم نے خداترس،وضعدار، بازوق اور گنگاجمنی تہذیب سے بھرپور پایا ہے۔انکے قطعات پر ہفتہ ہم اسی اخبار میں پڑھتے ہیں جو حالات حاضرہ کی عکاسی کرتے ہیں۔اور یاد دلاتے ہیں شوکت تھانوی اور رئیس امرو ہوی کی
دل صاحب کی کتاب میں قطعات اور رباعیات کا مزاج ہمیں ایک ہی نظر آتا ہے اور عام پڑھنے والا اس پر کم دھیان دیتا ہے۔کہ فرق کیا ہے جب کہ دونوں منفوں میں چار، مصرعے ہوتے ہیں تو عرض ہے کہ غور کیجئے۔قطعات میں دونوں اشعار ہم قافیہ ملینگے۔مطلب یہ کہ قطعہ میں جو بھی خیال تسلسل کے ساتھ پیش کیا جائے تو دوسرا اور چوتھا مصرعہ ہم قاضیہ ہوتا ہے۔رباعی میں صرف تیسرا مصرعہ قافیہ کا بابند نہیں صرف پہلا دوسرا اور چوتھا ہم قافیہ ملیگا ہم یہاں ایک قطعہ اور ایک رباعی پیش کرتے ہیں۔جو حالات حاضرہ کے پس منظر میں ہیں۔
قطعہ پیش خدمت ہے جو سندھ کی سیاست کے تناظر میں لکھا ہے دل صاحب نے
خدا نے ان کو عروج بخشا، مقام اعلیٰ عطا کیا ہے
گورنری بھی جو کر رہے ہیں وہ سندھ کے ہیں وزیراعلیٰ
وہ اپنی تقدیر کے دھنی ہیں حکومت سندھ کے غنی ہیں
نہیں ہے کوئی بھی انکا ہم سر، وہ خود ہیں اپنے مشیر اعلیٰ
اور اب رباعی پیش نظر ہے غور کیجئے اس کی روح بھی قطعہ سے ملتی ہے
تم جانے نہیں دو گے ہم آنے نہیں دینگے
الجھی ہوئی باتوں کو سلجھانے نہیں دینگے
ہم کچھ بھی کریں اس میں یہ سندھ ہمارا ہے
خود کھائیں گے ہم، تم کو کچھ کھانے نہیں دینگے