پٹرولیم بحران رپورٹ پر وزیر اعظم کی کارروائی

0
80

جون 2020ءمیں پٹرولیم بحران سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ پرکارروائی کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے اپنے معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر کو عہدہ چھوڑنے اور سیکرٹری پٹرولیم کو ہٹا کر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ وفاقی وزراءشفقت محمود‘شیریں مزاری اور اسد عمر نے وزیر اعظم کے احکامات سے میڈیا کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ معاون خصوصی اور سیکرٹری پٹرولیم کو صرف تحقیقات کو کسی شک سے بچانے کی خاطر عہدوں سے ہٹایا گیا۔ وزراءنے بتایا کہ وزیر اعظم عوام کو مراعات سے محروم کرنے والے مافیا کے خلاف آخری حد تک جانا چاہتے ہیں۔وزیر اعظم عمران خان ملک میں شفافیت لانے کے بارے میں جس عزم کا اظہار کرتے رہے ہیں بلا شبہ یہ فیصلہ اس کو تقویت دیتا ہے۔ 31 مئی 2020ءکو حکومت نے کورونا وائرس کے پھیلاﺅکے باعث طلب میں کمی پر پاکستان میں نرخ کم کرنے کا فیصلہ کیا ، سات روپے فی لٹر کمی کا اعلان کر دیا گیا۔ اس سے پٹرول کی فی لٹر قیمت 74 اعشاریہ 52 روپے پر آ گئی۔ تاہم قیمت میں اس کمی کے دو روز بعد ہی پورے ملک میں پاکستان سٹیٹ آئل کے پمپس کے سوا کہیں پٹرول دستیاب نہ ہوا، پٹرول کا بحران پیدا ہو گیا۔ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے 9 جون کو حکام سے اس مصنوعی بحران کے ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا کہا گیا۔کچھ روز بعد ہی اوگرا کی جانب سے چھ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں پر کل چار کروڑ روپے کے جرمانے عائد کیے گئے تاہم اس کے باوجود پٹرول کا بحران ویسا ہی سنگین رہا۔ اربوں روپے کمانے والی کمپنیوں سے چند کروڑ کا جرمانہ ایک مذاق تھا۔ تیل کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے مجبوری میں حکومت کو 26 جون کو پیٹرول کی قیمتوں میں 25 اعشاریہ 58 روپے کا اضافہ کرنا پڑا۔ اس کے کچھ ہی گھنٹوں بعد پٹرول کی سپلائی معمول پر آ گئی۔ وزیرِ اعظم عمران خان کے لئے یہ صورتحال قطعی اطمینان بخش نہیں تھی، اس بحران کی تحقیقات کروانے کا فیصلہ کیا گیا اور اس کی ذمہ داری ایف آئی اے کو سونپی گئی جس نے دسمبر 2020 ءمیں اپنی رپورٹ وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کر دی۔اس رپورٹ کو دیکھنے کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ کابینہ کی ایک کمیٹی رپورٹ کا جائزہ لے کر کچھ سفارشات مرتب کرے گی جو وزیرِ اعظم عمران خان کو پیش کی جائیں گی۔ تازہ فیصلے کی بابت وفاقی وزیر ترقیات اسد عمر کا کہنا ہے کہ ایف آئی ان سوالات کے جوابات پر مبنی تحقیقات کرے کہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی انوینٹری رکھنے کی پر غور کیا جانا چاہئے کہ کیا آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے اس ضرورت کو پورا کیا؟ دوسری بات یہ کہ دستاویزات میں جو فروخت درج کی گئی اس میں اور حقیقت میں ہونے والی فروخت میں کتنا فرق ہے۔کیا مصنوعات کی ذخیرہ اندوزی کی گئی، اگر کی تو کس نے کی؟ اس کے علاوہ نظام کی ایسی کون سی کمزوریاں ہیں جن میں قانون کی خلاف ورزیاں چلی آ رہی ہیں، انھیں بھی ان سفارشات کا حصہ بنایا گیا ہے۔ جناب اسد عمر کے مطابق ان فرانزک تحقیقات میں آئل مارکیٹنگ کمپنیوں اور ریٹیلرز کو شامل تفتیش کیا جائے گا لیکن ساتھ ان سرکاری افراد کو بھی شامل کیا جائے گا جنھوں نے اس حوالے سے ان کی معاونت کی۔ اس میں پٹرولیم ڈویزن، اوگرا اور پورٹ اتھارٹی کے لوگوں کو شامل تفتیش کیا جائے گا۔ دوسرا حصہ انتظامی امور کے حوالے سے ہے جس میں فیصلوں میں کمزوریاور ان مذکورہ اداروں میں کچھ افراد کے بارے میں کہا گیا کہ ان کی قابلیت اتنی نہیں ہے کہ یہ عہدوں سے انصاف کر سکیں۔ ان تمام انتظامی فیصلوں کے بارے میں پٹرولیم ڈویزن کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ انھیں دیکھیں اور وزیرِ اعظم کو اس بارے میں رپورٹ کریں۔ ان سفارشات کا تیسرا اور آخری پہلو پورے نظام میں اوگرا اور پٹرولیم ڈویزن کے حوالے سے جو ابہام موجود ہے اس کے بارے میں ہے جسے قانون سازی کے ذریعے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک عمومی تاثر رہا ہے کہ پاکستان میں کوئی سانحہ ہو‘ کوئی بڑا سکینڈل ہو یا حکومت کی بڑی غلطی ہو اسے دبا دیا جاتا ہے‘ عوامی دباﺅ پر کسی معاملے کی انکوائری یا تحقیقات کرانا پڑیں تو تحقیقاتی رپورٹ چھپا لی جاتی ہے اس دوران کئی سال گزر جاتے ہیں۔ قصور وار ریٹائر ہو جاتے ہیں، حکومت ختم ہو جاتی ہے یا پھر اس معاملے میں عوام کی دلچسپی کم ہو جاتی ہے۔ پٹرولیم نرخوں میں کمی کا اعلان حکومت نے کیا۔ پٹرولیم کمپنیاں اس امر کی پابند تھیں کہ جب وہ نرخ بڑھنے کا فائدہ لیتی ہیں تو عالمی نرخ کم ہونے کا فائدہ بھی پاکستانی صارفین کو منتقل کریں۔ اگرچہ ذمہ دار عناصر کی کوششوں کے باعث پٹرولیم رپورٹ کو وزیر اعظم تک پہنچنے میں لگ بھگ 9ماہ لگ گئے لیکن اچھی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم نے اس پر فیصلہ کرنے میں دیر نہیں کی۔ ذخیرہ اندوز مافیا روز مرہ استعمال کی چیزیں مہنگے داموں فروخت کر رہا ہے۔ اس سے حکومت کی انتظامی گرفت پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے پٹرولیم بحران کے ذمہ داروں کے خلاف ایف آئی اے کو تین ماہ میں فرانزک تفتیش کا حکم جاری کر دیا ہے۔توقع کی جاتی ہے کہ شفافیت یقینی بنا کر مصنوعی قلت اور مہنگائی پیدا کرنے والوں کو انجام تک پہنچانے میں تاخیر نہیں کی جائے گی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here