افغان قوم نے روس کو شکست دینے کے بعد ایک مرتبہ پھرثابت کردیا کہ دنیا کی کوئی طاقت ان پر حکمرانی نہیں کر سکتی ہے، دیر سے سہی آخر کار امریکہ نے افغانستان سے اپنی افواج واپس بلانے کا اعلان کردیا جس کی بڑی وجہ معاشی ضروریات ہیں، امریکہ اس وقت افغان جنگ میں اربوں ڈالر جھونک چکا ہے جس کا ابھی تک کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے،کمزور معیشت کی وجہ سے امریکہ میں بے روزگاری عروج پر پہنچ گئی ہے، نوجوان فارغ بیٹھے ہیں اور پڑھے لکھے افراد بھی بے روزگاری الاؤنس کے لیے اپلائی کرنے کے لیے مجبور ہیں، نوجوانوں کی اکثریت بے روزگاری کا شکار ہوکر ڈپریشن کا شکار ہے جس کی وجہ سے آئے روز نفرت آمیز واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، آئے روز مختلف شہروں میں نوجوان ڈپریشن میں ایشیائی اور دیگر ممالک کے شہریوں کو اندھا دھند فائرنگ کا نشانہ بناتے ہیں یا پھر مختلف بہانوں سے غیر ملکیوں کو زدوکوب کررہے ہیں جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ ایسے حالات کا شکار ہیں جوکہ آج سے قبل انھوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے ہیں۔دنیا میں ڈالر کی گرتی قدر بھی امریکی معیشت کے لیے بڑا مسئلہ ہے، امریکہ کو اس وقت مشر ق وسطیٰ اور دیگر قابض ممالک میں تیل کے کنوؤں تک رسائی ہے جس سے اس کی اکانومی ملک کابوجھ برداشت کررہی ہے، روس ابھی اس قابل نہیں کہ وہ دنیا میں سپر پاور کے طور پر سامنے آ سکے، چین سپر پاور کے طور پر ابھرنے کی بھرپور کوشش کررہا ہے لیکن امریکہ اس پر دباؤ بڑھائے ہوئے ہے تاکہ وہ یہ مقصد حاصل نہ کرسکے، دنیا میں کسی دوسرے بڑے سپر پاور پلیئر کے نہ ہونے کا فائدہ بھی امریکہ باخوبی اُٹھا رہا ہے۔اب آتے ہیں افغان جنگ کی طرف تو اکتوبر 2001 میں امریکہ نے طالبان کو بے دخل کرنے کے لیے افغانستان پر حملہ کیا جو امریکہ کے بقول اُسامہ بن لادن اور القاعدہ کے دیگر افراد جو نائن الیون حملوں سے وابستہ ہیں، انھیں پناہ دے رہے تھے۔افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں اضافہ اس وقت ہوا جب واشنگٹن نے طالبان کی شورش کا مقابلہ کرنے اور تعمیر نو کے لیے فنڈ کی خاطر اربوں ڈالر خرچ کیے۔2010 سے لے کر 2012 کے درمیان، جب امریکہ کے ایک لاکھ سے زیادہ فوجی افغانستان میں موجود تھے، تو اس جنگ پر آنے والی لاگت ایک کھرب ڈالر سالانہ تک بڑھ گئی تھی۔2016 سے 2018 کے درمیان سالانہ اخراجات 40 ارب ڈالر کے لگ بھگ تھے اور 2019 (ستمبر تک) کے لیے خرچ کا تخمینہ 38 ارب ڈالر ہے۔امریکی محکمہ دفاع کے مطابق افغانستان میں (اکتوبر 2001 سے ستمبر 2019 تک) مجموعی فوجی اخراجات 778 بلین ڈالر تھے،سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2001 میں جنگ کے آعاز سے اب تک آنے والی مجموعی لاگت 822 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔براؤن یونیورسٹی کے ‘کاسٹ آف وار ‘ منصوبے میں ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ افغان جنگ کے بارے میں امریکہ کے سرکاری اعداد و شمار کافی حد تک کم ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ کانگریس نے افغانستان اور پاکستان میں آپریشنز کے لیے 978 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔ ”کاسٹ آف دی وار“ منصوبے کے شریک ڈائریکٹر نیٹا کرورفورڈ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس میں جنگ کے سابق فوجیوں کی دیکھ بھال، جنگ سے متعلقہ سرگرمیوں کے لیے دوسرے سرکاری محکموں پر خرچ کی جانے والی رقم اور قرض پر سود کی لاگت کے اخراجات شامل نہیں ہیں۔
اس رقم کا زیادہ تر حصہ انسداد دہشتگردی کی کارروائیوں اور امریکی فوجیوں کی ضروریات جیسے کھانے، لباس، طبی دیکھ بھال، خصوصی تنخواہ اور مراعات پر خرچ کیا گیا ہے۔امریکہ نے افغانستان میں پچھلے 18 سالوں میں ہونے والی تعمیر نو کی کوششوں میں خرچ ہونے والی تمام رقم کا تقریباً 16 فیصد یعنی 143۔ 27 ارب ڈالر ادا کیا، نصف سے زیادہ یعنی 88. 32 ارب ڈالر افغان نیشنل آرمی اور پولیس فورس سمیت افغان سکیورٹی فورسز کی تیاری میں خرچ ہوا،باقی رقم بنیادی طور پر گورننس اور انفراسٹرکچر کی بہتری کے ساتھ معاشی اور انسان دوست امداد اور منشیات کے خلاف اقدامات پر خرچ کی گئی۔امریکہ نے انسداد منشیات کی کوششوں پر اوسطاً 15 لاکھ ڈالر یا 2002 سے گذشتہ سال ستمبر تک نو ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔2001 میں جب سے طالبان کے خلاف جنگ کا آغاز ہوا تب سے اب تک امریکی افواج کو 2300 سے زیادہ ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اس کارروائی میں 20660 فوجی زخمی ہوئے ہیں۔ دسمبر 2019 تک امریکی فوج کے تقریباً تیرہ ہزار اہلکار افغانستان میں تھے لیکن وہاں تقریباً گیارہ ہزار امریکی شہری بھی تھے جو کنٹریکٹر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے لیکن افغان سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کے جانی نقصان کے مقابلے میں امریکی ہلاکتوں کے اعداد و شمار بہت کم ہیں۔
اب امریکہ کی حکومت مزید جانی و مالی نقصان برداشت کرنے کی پوزیشن میں ہر گز نہیں ہے جس کی وجہ سے افغان جنگ کو ختم کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے، افغان جنگ کے خاتمے سے امریکہ کی معاشی مشکلات میں بڑی حد تک کمی واقع ہوگی، اب افغان حکومت اور امریکہ کی جانب سے توقع ظاہر کی جار ہی ہے کہ طالبان ان کی شرائط پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے مستقل امن کی یقین دہانی کرائیں تاکہ امریکہ کے ساتھ اتحادی افواج کا افغانستان سے مستقل انخلا یقینی بنایا جا سکے لیکن طالبان مستقل قیام امن کی بجائے امریکہ اور اتحادی افواج کی افغانستان سے واپسی چاہتے ہیں،مستقبل میں افغان حکومت اور طالبان کو مل کر ہی قیام امن کا حل نکالنا ہوگا۔
٭٭٭