پی آئی اے اور اسٹیل مل کی کہانی!!!

0
211
پیر مکرم الحق

کئی لحاظ سے پی آئی اےPIAاور پاکستان اسٹیل مل کی کہانی ہی پاکستان کی کہانی ہے اور اگر اس کہانی کو کسی عنوان کی تلاش ہوئی تو وہ عنوان ہوگا۔اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے!!؟خصوصاً پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کی ابتدا بھی پاکستان کے ساتھ ہوئی بلکہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے کچھ ماہ قبل23اکتوبر1946ء میں بطور اورٹینٹ ایئرلائینز کے کلکتہ میں ہوئی ہے۔ایئرلائینز کلکتہ کی مشہور اور امیر ترین مسلم خاندان اصفہانی فیملی کی ملکیت تھا جس کے بزرگ مرزا ابوالحسن اصفہانی نے پاکستان کے اواٹلی دور میں قائداعظم کو مکمل تعارف کی نہ صرف یقین دہانی کروائی بلکہ عمل”دامہ،درمہ سخنے” کرکے دکھایا وہ اورٹینٹ ایئرلائینز جس کے پاس 10 ڈی سی3(DC-3)جہاز تھے انہیں پاکستان بننے کے بعد لے کر کراچی آگئے اور جلدہی ٹینٹ ایئرلائینز کو پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائینز میں تبدیل کر دیا گیا۔اصفہان ایران سے نکل مکانی کرکے(2)دو صدی پہلے ہندوستان آنے والے اس خاندان کا شمار ہندوستان کے گنے چنے چند امیر ترین گھرانوں میں ہوتا تھااور اگر اس خاندانوں کو امیر ترین مسلمان گھرانے سے تشبیہ دی جائے تو غلط نہیں ہوگااوراٹلی کے دور میں اصفہانی خاندان ہی بنگال کے سب سے بڑے چائے کمپنیوں کے مالکان تھے۔اس کے علاوہ گتا(کارڈ بورڈ)اور پٹسن کے کاروبار میں بھی اپنا بے پناہ اثررسوخ رکھتے تھے۔ایم ایم اصفہانی کمپنی کی بنیاد1820میں چٹاگانگ میں ڈالی گئی تھی اور بعد میں یہ ایک گروپ آف کمپنیز کی شکل اختیار کر گیاجوکہ چائے(Tea)کے علاوہ شپنگ، کپڑے کے کارخانے، رئیل اسٹیٹ، زرعی اجناس اور ٹریڈنگ ہاوس کے مالک بن گئے۔مرزا ابولحسن اصفہانی قائداعظم کے قریبی ساتھی اور مسلم لیگ میں قائداعظم کے ایک سپاہی کی طرح ساتھ رہے۔قدم قدم پر قائد کی آواز پر لبیک کہنے والے لوگوں میں سرفہرست تھے۔1946ء میں متحدہ ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور اسی سال میں بطور مسلم لیگ کے نمائندے انھوں نے نیویارک ہیرالڈٹربیون فورم میں شریک ہوئے1947ء میں قائد کے نمائندہ کی حیثیت سے امریکی حکام سے ملاقات کی اور1947ء سے1952ء تک امریکہ میں پاکستان کے سفیر رہے۔بطور نائب چیئرمین اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کی نمائندگی کی،1952ء سے1954ء تک برطانیہ میں پاکستان کے سفیر رہے۔ قومی ہوا بازی کی کمپنیPIAکو بنانے اور چلانے کا فریضہ ایک عرصہ تک ایک بہت بڑے کاروباری خاندان کے ہاتھوں میں رہا جس کا اثر1970کی دہائی تک رہا جب ایئرمارشل نورخان جیسے قابل اور ایماندار سپہ سالار کے ہاتھوں میں رہا پھر جب جنرل ضیا کا ٹولہ صاحب اقتدار ہوگیا اور پروفیشنلز کو سرے بازار قتل کرکے سفارش اور اقربا پروری کو پروان چڑھایا گیا تو اس گراں قدر قومی ادارے کو تباہ و برباد کرنے کے عمل کا آغاز ہوگیاجو ادارہ کبھی قابل فخر ہوتا تھا وہ قابل شرم بنا دیا گیا۔یہی کچھ پاکستان اسٹیل ملز کے ساتھ ہوا جس کا خواب تو شہید لیاقت علی نے دیکھا لیکن جس پر عملی جامعہ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے پہنایا پہلے بطور وفاقی وزیر صنعت کے امریکی غیر دلچسپی کو بھانپنے کے بعد روسی حکومت سے مذاکرات کے ذریعے اس پاکستان اسٹیل کے منصوبہ کو آخری شکل دی گئی اور بالاآخر1973میں ذوالفقار علی بھٹو کی انتھک کوششوں اور پاک روسی اشتراک سے پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے منصوبہ پر عمل کا آغاز ہوالیکن1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ ُالٹنے کے بعد ضیاء الحق مارشل لائی حکومت اپنے اقتدار کو بچانے کی تنگ ودو میں مصروف ہوگئی، ملک میں بحالی جمہور کی تحریک زور دار طریقے سے چلی ،پورے ملک میں لاکھوں لوگ جیلوں میں ڈالے گئے۔
ہزاروں جیالوں کو بشمول صحافیوں جن میں کچھ معذور صحافی بھی تھے کو کوڑے لگائے گئے ،ملک کا نظام درہم برہم ہوگیا۔مخالفین کی آوازیں دبانے کیلئے دارورسن سجا دیئے گئے، کئی سیاسی کارکنان کو پھانسی دے دی گئی۔بنگلہ دیش کے بننے کے بعد جو ملک میں مایوسی پیدا ہوگئی تھی اسے نوے ہزار فوجیوں کو بھارتی قید سے نکال کر واپس لے آنے والے وزیراعظم نے جو قومی تعمیر نو کی تحریک چلائی ہوئی تھی۔اس پر مارشل لاء کے اندھیرے سائے چھا گئے اور اسی کشمکش میں پاکستان اسٹیل کی تکمیل میں بھی سست روی پیدا ہوگئی۔جو کام کروڑوں میں پایہ تکمیل ہونا تھا وہ اربوں میں ہونے لگا اور اس طرح ایک شاندار منصوبہ کی ملکیت (OWNERSHIP)نہ ہو پائی پھر اسٹیل ملز کو بھی پی آئی کی طرح نااہل ریٹائرڈ فوجی افسروں کے ہتھے چڑھا دیا گیا کیونکہ یہ لوگ احتساب کے عمل سے ماورا ہیں۔ان کا کوئی آڈٹ کرنے کی ہمت بھی نہیں رکھتا، اس لئے ان گرانقدر اداروں میں انحطات کا عمل تیزی سے شروع ہوگیااور آج کئی اور ادارے پاکستان کی طرح کنگال ہوچکے ہیںاور آکسیجن کے وینٹلیٹرز پر آخری سانسیں لے رہے ہیں،وہ بھی بمشکل !آج ہم اُداس اور بے بس ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here