مزاحمت، مفاہمت یا منافرت!!!

0
180
جاوید رانا

قارئین کرام! تہہ دل سے ہمارا تشکر و گزشتہ کالم پر آپ کی پسندیدگی اور بالذات و بذریعہ پیغامات اظہار کا، ہماری کوشش ہوتی ہے کہ قومی و بین الاقوامی معاملات پر سچائی اور غیر جانبداری سے تجزیہ و تبصرہ کر کے آپ کو حقائق سے آگاہی دیں۔ میڈیا کا فریضہ یہی ہے کہ وہ اپنے قارئین و ناظرین تک حقائق پہنچائے اور بے لاگ تجزیہ و تبصرہ کرے۔ ایک پاکستانی ہونے کے ناطے وطن عزیز کے میڈیا کے کردار پر افسوس بھی ہوتا ہے اور غصہ بھی آتا ہے کہ ہمارے بیشتر صحافی، میڈیا اینکرز، تبصرہ نگار، اور سوشل میڈیا کے بلاگرز سچائی سے گریز کرتے ہوئے نہ صرف معاملات و ایشوز کو مسخ کرتے ہیں بلکہ اپنے سرپرستوں کی خوشنودی اور ذاتی بُغض و عناد میں ان حدوں کو بھی پار کر جاتے ہیں جو نہ صحافتی اقدار کے مطابق ہوتی ہیں اور نہ ہی ملک و قوم کے حق میں۔
گزشتہ ہفتے اسی قسم کی ایک خامہ فرسائی ملک کے ایک سینئر صحافی، اینکر حامد میر نے کی ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرس ہونے والے ایک ویڈیو میں حامد میر نے جو ایک طویل عرصے سے فوج، اسٹیبلشمنٹ اور جنرلز کیخلاف اپنے مربیوں کے بیانیئے کے مطابق اشارتاً زہر اُگلتا رہا ہے، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کیخلاف نام نہاد صحافی و بلاگر اسد طُور پر نامعلوم افراد کے تشدد پر اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اس حامد میر نے براہ راست اس واقعہ کو بنیاد بناتے ہوئے نہ صرف ISI پر اس کا الزام دھرا ہے بلکہ پاک افواج کیخلاف وہ زہریلی اور فحش زبان استعمال کی ہے جس کا کوئی محب وطن پاکستانی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ہم صحافتی اخلاق کے تقاضوں کے باعث اس بے غیرت شخص کے الفاظ یہاں تحریر تو نہیں کر سکتے، اتنا اشارہ ضرور کر سکتے ہیں کہ اس شخص نے ہماری فوج اور ایجنسیز کے خاندانوں اور بیڈ رومز کو بکھیڑنے سے بھی گریز نہ کیا، نہ صرف یہ بلکہ اس نے فوج پر اسرائیلی و بھارتی حمایت اور فوج کی توپوں کو زنگ لگ جانے کی بھی زہر افشانی کی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اپنے سیاسی سرپرستوں نوازشریف اور مریم نواز کے اسٹیبلشمنٹ کیخلاف نفرت انگیز اور مزاحمتی بیانیہ کو مسلسل سپورٹ کرنے والے اس شخص نے مزاحمت کے سلسلے کو ببانگ دہل منافرت تک پہنچا دیا ہے جو کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر محض افسوس کا اظہار نہیں کیا جانا چاہیے بلکہ نفرت کے اس شجر کو جڑ سے اکھاڑنے کی ضرورت ہے۔
پاکستانی سیاست میں بالخصوص اپوزیشن کی دو قابل ذکر شکست خوردہ جماعتوں نواز لیگ اور جمیعت علمائے اسلام (ف) کے روئیے واضح طور پر محاذ آرائی اور مزاحمت کے ایجنڈے سے عبارت ہیں۔ فضل الرحمن عرف مولانا ڈیزل تو گزشتہ انتخابات میں اپنی شکست کے بعد سے ہی پاگل پن کا شکار ہے اور اقتدار کی راہداریوں میں داخلے کیلئے ہر طرح کے جتن کر رہا ہے، نواز لیگ اپنی لُوٹ مار اور متوقع نا اہلی و سزائوں سے تحفظ کیلئے ہاتھ پائوں مار رہی ہے۔ مزید تفصیل میں جانے سے گریز کرتے ہوئے صرف اتنا عرض کر دیتے ہیں کہ اپنے مفاداتی مقصد کیلئے انہوں نے مخالف جماعتوں کا اتحاد بنایا جو مفادات کی آندھی میں ہی تِتر بِتر ہو گیا۔ دس جماعتوں میں محض چار ہی قابل ذکر جماعتیں تھیں جن میں سے دو یعنی پیپلزپارٹی اور اے این پی نے ن لیگ کے خصوصاً مریم نواز اور اس کے کاسۂ لیسوں شاہد خاقان، احسن اقبال کے بے اصول و جارحانہ روئیوں کے باعث علیحدگی اختیار کر لی اور اس وقت پی ڈی ایم کا حال ”پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں” جیسا ہے۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ مخالف سارے منصوبے اور دعوے دھڑام سے زمین بوس ہو چکے ہیں۔
نواز لیگ جو شروع ہی سے اسٹیبلشمنٹ کے سایۂ عاطفت کی محتاج رہی ہے، ہر دور میں Good Cop اور Bad Cop کا کھیل جاری رکھتی رہی ہے۔ بڑا بھائی فوج، عدلیہ اور اداروں سے اپنی ضدی طبیعت کے باعث ٹکر لیتا رہا ہے جبکہ چھوٹا بھائی مصالحت و مفاہمت اور در پردہ رابطوں سے بھائی کی لگائی ہوئی آگ پر پانی ڈالنے کی مساعی کرتا رہا ہے۔ کچھ یہی صورتحال حالیہ برسوں میں بھی رہی ہے۔ بڑے میاں اور ان کی بیٹی ٹکرائو کی سیاست سے اپنے اہداف کی تکمیل کیلئے جارحانہ و مزاحمتی رویوں پر عمل پیرا ہیں لیکن اس بار وہ اس میں کامیاب ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہے، محمد زبیر اور دیگر ذرائع سے ہونیوالے رابطے بھی ان کیلئے مطلوبہ نتائج نہ لا سکے تو چھوٹے بھائی مفاہمت، مصالحت و مذاکرات کے نسخے کیساتھ بعض درپردہ یقین دہانیوں و ضمانت کیساتھ سامنے آئے لیکن ان کی ساری کاوشوں پر اس وقت پانی پھر گیا جب پہلے تو کپتان کی حکومت نے ان کی لندن روانگی رکوا دی اور بعدا زاں ان کی بھتیجی نے ان کی مفاہمت کی دیوار کو لات مار کر مٹی کا ڈھیر بنا دیا۔ مریم نواز کا جملہ ”جنگ میں مزاحمت کر کے ہی مفاہمت کا راستہ نکلتا ہے” عجیب بات یہ ہے کہ مزاحمت کے اس عمل سے نواز لیگ اور مولاناڈیزل نے اپوزیشن کی عمارت کے دو ستون ہٹا کر اس عمارت کو ناکارہ بنا دیا ہے پی ڈی ایم کے حالیہ اجلاس کے بعد ہونیوالے اعلان میں نہ مظاہروں کا ذکر ہے، نہ استعفوں کی کوئی بات ہے، البتہ دو جلسوں اور یوم آزادی پر اسلام آباد میں اسرائیلی جارحیت کیخلاف مظاہرے کے اعلان کیساتھ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے حوالے سے پاکستان میں امریکہ کو فوجی اڈے دیئے جانے کے معاملات پارلیمان میں آن کیمرہ اجلاس اور اپوزیشن کو اعتماد میں لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ گویا پارلیمان میں معاملات نپٹانے کے پیپلزپارٹی اور اے این پی کے مؤقف کو ایک جانب تسلیم کیا گیا اور دوسری طرف حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی تقدیم کو بھی مان لیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت میں پی ڈی ایم کے وجود کا کیا جواز ہے جس میں گنتی کی دو بڑی پارلیمانی جماعتیں ہی ہیں۔ باقی جماعتوں کا تو پارلیمان میں کوئی وجود ہی نہیں ہے یا نہ ہونے کے برابر ہے۔ کپتان کی حکومت کیلئے یقیناً اس بے اثر اکٹھ سے اب کوئی پریشانی نہیں بقول سیانوں، کوئوں کے شور سے ڈھول نہیں پھٹتے۔
سچ تو یہ ہے کہ کپتان کو مخالف سیاسی سُورمائوں سے اب کسی پریشان کُن صورتحال کا کوئی خطرہ نہیں، مخالفین کا اکٹھ ایسے شیر کی مانند ہے جس کے دانت اور ناخن ختم ہو چکے ہیں اور اس کی حالت ایک ایسے وجود کی مانند ہے جس میں حرارت کی کوئی رمق نہیں۔ 4 ہزار ارب سے ٹیکس کا حصول 3.94 فیصد کی شرح نمو، آئی ٹی سیکٹر، ایگری سیکٹر، اسٹاک مارکیٹ میں چار سال میں سب سے زیادہ بلند سطح، بیرونی ممالک سے ترسیل زر کی ریکارڈ وصولی سے معیشت کی کشتی بھنور سے نکل رہی ہے دوسری جانب بیرونی دنیا سے پاکستان کی بہترین خارجہ پالیسی، کووڈ کے حوالے سے مثالی اقدامات، گلوبل وارمنگ کے حوالے سے اقدامات پر تحسین یقیناً پاکستان کی خوشحالی و حکومتی اقدامات کیلئے انتہائی خوش آئند ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ عوام کے حالات کی بہتری پر پوری توجہ دی جائے۔ بجٹ آنے میں چند دن ہی رہ گئے ہیں، تبدیلی حکومت کو ایک عام آدمی گھرانے کو محدود وسائل میں زندگی بہتر طریقے سے گزارنے کیلئے مناسب اقدامات کرنے کی ضرورت ہے محض بیانات سے عوام دوست بجٹ نہیں بن سکتا ہے۔ بُھس میں چنگاری ڈالنے والی اپوزیشن بجٹ کے حوالے سے منافرت و مخالفت کی بھرپور تیاریوں میں ہے۔ مخالفین کے اس استدلال کو غلط ثابت کرنا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here