آزاد کشمیر کے انتخابات کے نتائج مشکوک اور اپنے سوالیہ نشان یا دھبہ کیوں لگ گیا ہے اور کشمیری عوام میں بیچنی اور بیزاری واضح طور پر نظر آرہی ہے۔اور ان علامات سے مقبوضہ کشمیر کا مقدمہ بین الاقوامی سطح پر کمزور پڑنے کے امکانات بڑھ جائینگے۔جو جماعت اپنے سربراہ کیلئے ایک باوقار مجمع نہیں اکٹھا کرسکی وہی جماعت بھاری اکثریت سے جیت گئی؟یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے جبکہ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ ن لیگ اور پی پی پی کے جلسوں میں عوام کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی تھی لیکن وہ خاطر خواہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہے، جن افراد کا تعلق ماضی میں ن لیگ اور پی پی پی کے ساتھ رہا ہے۔انکی وفاداریاں تبدیل کرائیں گئی جنہیں وفادیاراں تبدیل کرانے کے خاطر بھاری رقوم دی گئیں یا حکومتی دبائو ڈالا گیا یہاں تک کے بلیک میل جیسا غلیظ خربہ تک استعمال کیا گیا۔GCOمری نے رقوم باٹیں جس کی پاواشک میں اس عہدے سے ہٹا دیا گیا۔مقتدر حلقوں نے کھل کر تحریک انصاف کے امیدواروں کی کھل کر حمایت کی۔آزادکشمیر میں پہلے بھی انتخابات ہوتے رہیں ہیں لیکن جس شدت سے وفاقی حکومت نے ان انتخابات میں غیر معمولی دلچسپی لی ہے۔اس سے کچھ دال میں کالا محسوس ہوتا ہے۔مخالف جمائتوں کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی طاقتیں اس منصوبہ کے حق میں ہیں کہ آزاد کشمیر کو پاکستان میں ضم کرکے اس تنازعہ پر پانی ڈالا جائے اور باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان بھی اسی تجویز کے حق میں ہیں تو پھر کیا عمران خان کے پیچھے وہ بین الاقوامی طاقتیں ہیں جو اپنا پاکستان ایجنڈ وزیراعظم کے توسط سے نافذ کرنا چاہتی ہیں اگر یہ صحیح بات ہے تو پھر ڈاکٹر اسرار مرحوم اور حکیم سعید مرحوم کے خدشات کی صحت پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جاسکتا ہے۔
بحرحا کشمیر میں حکومتیں پہلے بھی بدلتی رہی ہیںاور آئندہ بھی بدلیں گی لیکن دیکھنا یہ کہ کیا تحریک انصاف کی حکومت کشمیریوں کی قسمتیں بدلتی ہے یا کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی لاتی ہے۔کیونکہ جو حکومت تین سال میں پاکستان میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکی وہ کشمیر میں کیا تبدیلی لا سکے گی؟بحرحال اب تو پاکستان کے تین صوبوں، گلگت بلتستان اور اب آزاد کشمیر میں بھی تبدیلی سرکار نے اپنا جھنڈا لہرا دیا ہے۔اب عوام کو اس تبدیلی کا انتظار رہیگا۔جس کا وعدہ عمران خان نے انتخابات سے پہلے کیا تھا۔فتوحات تو مکمل ہوگئیں اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام کی تقدیر کا کیا فیصلہ ہوتا ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ یہ بات تو واضح ہوتی جارہی ہے۔کہ مقتدر حلقوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ عوام کو آزادانہ طور پر ان کے نمائندے چننے کا حق تو نہیں دیا جاسکتا البتہ جمہوریت کا ڈھونگ جاری وساری رکھا جائیگا۔تاکہ غیر ملکی طاقتیں بھی مطمئن رہیں کہ نام کی جمہوریت چلتی رہے چاہے حکومتیں سلیکٹڈز ہی رہیں جو اندرونی اور بیرونی طاقتوں کی مرضی ومنشا کے فیصلے کرتے رہیں۔سلیکٹڈز سیاستدانوں کی کھیپ ختم نہیں ہوتی ہے۔آج عمران خان ہیں کل شاہد آفریدی بھی آسکتا ہے یا پھر پرانے نمک خوار کو بھی سامنے لایا جاسکتا ہے۔سنا ہے کہ چودھری نثار(پنڈی والے) بھی کھل کر سامنے آگئے ہیں۔اور اب انہوں نے بے حد اسرار کے بعد کھل کر میاں نوازشریف کے خلاف بولنا شروع کردیا ہے۔اور میاں شہبازشریف نے بھی اب پہلے کی طرح بوٹ پالش کرنا شروع کردی ہے۔اور لازماً ہے تبدیلی بڑے میاں صاحب کی آشیروار کے بغیر ممکن نہیں۔میاں صاحبان کاروباری لوگ ہیں اور کاروباری لوگ خسارے یا گھائے کا سودا نہیں کرتے۔پنجاب کی عوام کو اگر تبدیلی سرکار20فیصد بھی اپنے پروگرام کو عملی جامہ پہناتی تو میاں صاحبان کی مقبولیت میں خاطر خواہ کمی آتی لیکن تبدیلی سرکار کی بدترین پرفارمنس نے انہیں پھر میاں صاحبان کیطرف دیکھنے پر مجبور کردیا ہے۔فواد چودھری، گنڈا پور، اور فردوس اعوان کتنی بھی بڑکیں مارتے رہیں۔لیکن پنجاب کی عوام کی اکثریت کے دلوں میں آج بھی شیر کی محبت رواں دواں مانے بدعنوانوں کے لگائے گئے بدعنوانی کے الزامات عوام نہیں مانتی۔
٭٭٭