سابقہ چیف جج صاحبان آمنے سامنے!!!

0
100
رمضان رانا
رمضان رانا

گلگت وبلتستان کے سابقہ چیف جج سابقہ سندھ ہائیکورٹ کے جج سندھ کے سابقہ پراسیکوٹر جنرل اور ذوالفقار علی بھٹو شہید لاء یونیورسٹی کے وائس چانسلر جناب رانا محمد شمیم نے پچھلے دنوں امریکہ نیویارک میں پاک امریکن وکلاء برائے سول ولیگل رائٹس کے پروگرام رضوان جوڈیشل ایکیٹوازم بطور مہمان خصوصی شرکت کی جس میں انہوں نے عدلیہ کی کمزوریوں، ازخود نوٹسوں اور عدالتی فیصلوں پر تفصیل سے بات چیت کی کہ آج پاکستانی عوام کا عدلیہ پر اعتماد اور اعتبار اُٹھ چکا ہے۔جس سے عوام میں بے چینیاں اور کشیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں۔جناب جسٹس رانا شمیم نے دوسرے دن وکلاء کی مخصوص نشست میں اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ مجھ پر ایک بہت بڑا بوجھ ہے کہ میرے سامنے سپریم کورٹ کے سابقہ جسٹس جسٹس ثاقب نثار جو اپنے خاندان کے ساتھ چھٹیاں گزارنے گلگت وبلتستان آئے ہوئے تھے۔جن کے ساتھ ان کے27افراد شامل تھے جنہوں نے ایک دن میری موجودگی میں فون کال کرکے اپنے رجسٹرار سے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فلاں جج کو فون کال ملائو جب ان کا مخصوص جج سے رابطہ ہوگیا تو انہوں نے کہا کہ نوازشریف اور مریم نواز دونوں کی25جولائی2018کے انتخابات سے پہلے بیل نہیں ہونا چاہئے۔جس کو ہم وکلاء نے اتنی اہمیت نہ دی کہ چیف جسٹس ثاقب نثار کھل کر موجودہ حکمرانوں کو اقتدار میں لانے میں پیش پیش تھے۔جنہوں نے پانامہ کی بجائے اوقامہ کی آئے میں سابقہ وزیراعظم نوازشریف کے خلاف ایک ایسا فیصلہ دیا کہ جس کی دنیا بھر کی عدلیہ میں مثال نہیں ملتی ہے کہ تنخواہ نہ لیتے کو اثاثے قرار دیا گیا جس میں قانون پاکستان یا ٹیکس کے قانون کو پست پشت ڈال کر بلیک ڈکشنری کا سہارا لیا۔جو کوئی قانون نہیں بلکہ (OPion)ہونی ہے۔یا پھر انہیں امیدواروں کے حلقوں میں ہسپتالوں کا افتتاح کیا۔یا پھر انتظامی امور میں مداخلت کرتے ہوئے ڈیم نامی کے نام پر عوام سے چندے جمع کیے جس کا آج تک حساب وکتاب نہ دیا گیا ہے۔یا پھر ایک ماتحت جج کے اوپر سپریم کورٹ کے ایک جج کو نامزد کیا گیا یا پھر پانامہ پر جے آئی ٹی کے افسران پر فوجی احساس اداروں کو سوار کیا گیا اس لیے جسٹس ثاقب نثار کی اسیران نوازشریف اور مریم نواز کے بارے میں فون کال کوئی اچنبہ نہ تھی۔مگر جسٹس رانا محمد شمیم نے لندن جاکر اپنا حلفیہ بیان جاری کیا کہ جسٹس ثاقب نثار نے میری موجودگی میں فون کال کے ذریعے ججوں کو ہدایات کی اس کہ وہ نوازشریف اور مریم نواز کی بیل منظور نہ کریں جب تک انتخابات مکمل نہ ہوجائیں جس پر میڈیا پر شوروغل مچایا گیا۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے نوٹس لے کر سابقہ چیف جج رانا شمیم کو عدالت میں طلب کرلیا کہ یہ بیان جھوٹا ہے۔وہ جج میرے ساتھ بیرون دورے پر تھا وغیرہ وغیرہ حالانکہ چیف جسٹس اطہر من اللہ کو جسٹس رانا شمیم کے اس حلفیہ بیان پر نوٹس لیتے ہوئے چیف جسٹس ثاقب نثار کو بھی طلب کرنا چاہئے تھا۔کیونکہ آج وہ بھی جسٹس رانا شمیم کی طرح عام شہری بن چکے ہیں۔جن کے کردار اور اعمال پر عدالتی نوٹس لیا جاسکتا ہے۔کہ وہ دونوں میں کون سچا اور جھوٹا ہے۔تاہم جسٹس رانا شمیم کے اس حلفی بیان کو بہت زیادہ موضوع بحث بنایا گیا کہ یہ حلفی بیان لندن میں ایک مخصوص نوٹری سولیسٹر سے کیوں تصدیق کرائی گئی ہے جس کا سادہ جواب یہ ہے کہ شاید رانا صاحب کو خوف اور ڈر تھا کہ اگر میں نے پاکستان میں جاکر بیان دیا تو اسے روک دیا جائیگا۔لہذا نوٹری سے اس لیے تصدیق کرائی گئی کہ اگر ان کو کوئی بھی مشکل پیش آئے تب بھی ان کا نوٹری شدہ بیان ان کا بیان تصور سمجھا جائیگا۔جس کو ہر مقام پر ان کا بیان سمجھا جائے گا جو ہوا کہ جن کے بیان پر کوئی شک وشبہ نہیں کی جاسکتی ہے چاہے وہ آج پاکستان نہ ہوتے تو بھی یہ بیان جسٹس رانا شمیم کا تسلیم کیا جاتا دوسرا مسئلہ نوٹری سولیسٹر کا ہے کہ ایک مخصوص نوٹری سے کیوں تصدیق کرائی گئی ہے جو نوازشریف کے بھی کاغذات تصدیق کرتے نظر آتے ہیں۔جو نہایت احمقانہ دلائل میں ایک نوٹری کسی بھی شخص کے کاغذات کی دیکھ پڑتال کرکے ان کی موجودگی میں دستخطوں پر اپنی اسٹیمپ چسپاں کرکے دستخط کرتا ہے کہ یہ کاغذات میرے سامنے لائے گئے جن پر کاغذات کے حامل نے دستخط کیلئے جس کو میں نوٹری پبلک تصدیق کر رہا ہوں کہ کاغذات اسی شخص کے دستخط کیں جن پر انہوں نے میری موجودگی میں دستخط کیلئے لہٰذا یہ کاغذات دنیا میں کہیں بھی دیکھائے یا جمع ہوسکتے ہیں۔بہرکیف اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من نے اسلامی الحال صرف اور صرف سابقہ چیف جج رانا شمیم کو عدالت میں طلب کیا ہوا ہے جس میں دوسری پارٹی چیف جسٹس ثاقب نثار کو ابھی تک طلب نہیں کیا گیا ہے۔جب کہ ان کو بھی طلب کرنا عدالت پر فرق بنتا ہے جو شاید سپریم کورٹ کے سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار کو مقدس گائے کے طور پرسابقہ چیف جج رانا شمیم پر ترجیح دے رہے ہیں۔جو انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔اگر بنگلہ دیش کے چیف جسٹس کمار سنہا کو کرپشن میں سزا ہوسکتی ہے۔یا پھر ترکی میں بعض ججوں کو تختہ الٹنے کی سازش میں جیلوں میں ڈالا جاسکتا ہے تو سابقہ چیف جسٹس نثار کو کیوں نہیں عدالت میں طلب کیا جائے جن کے فون کال پر امیروں کے حقوق پامال ہوئے ہیں۔جس میں ایک چیف جسٹس اپنے ماتحت جج کو یہ حکم نہیں دے سکتا ہے کہ وہ فلاں فیصلہ کرے یا نہ کرے جو عدالتی کارروائی میں شدید مداخلت ہے جس کا اب احتساب کرنا پڑیگا۔کہ جو آئے دن طاقتور اداروں کے اشارے پر عدالتی فیصلے صادر کرکے پاکستان کو ایک بنانا ریاست بنا دیا جس کی وجہ سے آج پاکستانی عدالیہ دنیا بھر کی عدلیہ کے ناموں میں سب سے نیچے کھڑی ہے۔جس کے فیصلوں کا د نیا بھر میں مذاق اڑایا جارہا ہے۔لہذا ایسے اہم موقع پر جب سابقہ چیف جج صاحبان آمنے سامنے آچکے ہیں اس پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد کو ازخودنوٹس لینا چاہیے کہ حقیقت کیا ہے تاکہ عدلیہ کے ٹکرائو روکا جائے۔جس سے عدلیہ کے جج صاحبان ایک دوسرے کے پر الزامات عائد کر رہے ہیں جس کا مظاہرہ اکثر وبیشتر ہوتا نظر آرہا ہے۔کہ جب جسٹس قاضی کو بعض مقدمات سے دور رکھا جارہا ہے۔کیونکہ وہ موجودہ حکومت کی بے قاعدگیوں کے خلاف فیصلے دے رہے ہیں۔جنہوں کے عدالتی نظام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here