پاکستان میں تحریکوں کے بارے میں غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تحریکوں کے بانیوں اور پیروکاروں کو ساتھ جو کچھ ہوا۔وہ ناقابل بیان ہے کہ تحریک پاکستان کے بانیان قائداعظم لیاقت علی، فاطمہ جناح، شیخ مجیب، اکبر بگٹی کو مار دیا گیا۔ملک توڑا گیا بچے کھچے پاکستان کے وزیراعظم بھٹو کو سولی پر چڑھا دیا گیا ہے۔ جمہوریت کی عملبردار وزیراعظم بینظیر بھٹو کو قتل کیا گیا۔جمہوریت کے دشمن جنرلوں سے ٹکرائو میں وزیراعظم نواز شریف کو بار بار اقتدار سے ہٹایا اور جیل بھجوایا گیا ہے۔جس کے باوجود ملک میں جمہوریت کی قیام کے تحریکیں جاری رہی ہیں جس کے نتائج پر برآمد ہوئے ہیں کہ آج پاکستان پر کوئی باغی جنرل قبضہ کرتا ہوا نظر نہیں آتا ہے۔چاہے وہ سابقہ جنرلوں کی شکل میں ملک دشمن سازشیں کرتا نظر آتا ہے۔تاہم پاکستان میں تحریکوں کے پس منظر میں سابقہ بنگال اور موجودہ بنگلہ دیش آزادی کی تحریکوں کی آماہ جگاہ بنا رہا ہے یہاں نو آبادیات کے انگریزوں کے خلاف جنگیں لڑی گئی ہیں متحدہ بنگال میں کسانوں کے حقوق کی تحریکوں نے جنم لیا جس کے بانی مولانا بھاشانی تھے جو پاکستان میں مزدوروں کسانوں کے حقوق کے لیے پیش پیش تھے۔جب پاکستان کو ایک منظم گھنائونی سازش کے تحت توڑا گیا تو مولانا بھاشانی کے جانے کے بعد مغربی پاکستان تحریکوں سے محروم کردیا گیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کاش آج بنگال پاکستان میں ہوتا تو آج کے پاکستان میں موجود مزدوروں کسانوں اور ہادیوں کا یہ حال نہ ہوتا جو آج ٹھیکیداروں جاگیرداروں اور رسہ گیروں کے غلام بنا دیئے گئے ہیں جن کی حمایت میں کوئی مولانا بھاشانی مل رہا ہے۔مزید برآں کراچی جو صنعتوں فیکٹریوں کے”ملوں” کاروبار کا گڑھ رہا ہے جس کے مزدور، طلبا اور دانشوروں نے طبقے نے ہمیشہ آمریت اور بربریت کو لکارہ ہے جس کے طالب علم رہنما معراج محمد خان، صحتیاب علی خان، سعید حسن، علی مختار رضوی، نفیسی صدیقی رانا اظہر علی خان، ڈاکٹر سرور، ڈاکٹر دائود، ذاکر شہر الفضل، ڈاکٹر رشید، حسن خان، سید شہنشاہ حسین، امیر حیدر کاظمی اور دوسرے طلبا رہنما جو پچاس اور ساٹھ کی دہائی کے مشہور طلبا رہنما گزرے ہیں جن کو بارہ اماموں کے ناموں سے جانا جاتا رہا ہے جنہوں نے ایوبی آمریت کو ناک چنے چبا دیئے تھے۔علاوہ ازیں ساٹھ اور ستر کی دہائی کے طلبا رہنمائوں میں راقم لحروف جو دو مرتبہ اسلامیہ کالج کراچی طلبا یونین کا صدر اور انٹر کالجیٹ باڈی کا چیئرمین منتخب ہوا کے علاوہ جاوید ہاشمی، جسٹس رشید رضوی، جسٹس مقبول باقر، جسٹس حسن فیروز، جسٹس قاضی خالد، سینٹر مسرور احسن، سینٹر رضا ربانی، سینٹر پرویز رشید، الطاف حسین، محمودالحسن، جبار خٹک، جام ساقی، عاشق رضا، مجید بلوچ، افسراسیاب، رانا صفدر راجہ، ریاض، تنویر زیدی، عاقل لودھی، احمد دارا، جان عالم، سردار رحیم رازق بگٹی۔ اور دوسرے طلبا رہنما قابل ذکر ہیں جس میں لاتعداد لوگ اس دنیا کو خیرباد کہہ چکے ہیں۔اللہ پاک انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔(آمین)پاکستان میں تحریکوں کے اتار چڑھائو پر غور کیا جائے تو کئی تحریکیں بہرکیف بڑی کامیاب گزری ہیں۔جس میں پچاس ساٹھ، ستر، اسی یا دو ہزار تحریکوں میں چگتو فرنٹ، بوڈی ایف، پی این اے، ایم آر ڈی، اے آر ڈی، وکلاء تحریک اور موجودہ پی ڈی ایم تحریکیں قابل ذکر ہیں۔جس میں بعض کامیاب اور بعض جنرلوں کے ہاتھوں ہائی جیک کرلیا ہے۔یو ڈی ایف تحریک نے جنرل ایوب کو اقتدار سے محروم کیا جنہوں نے اقتدار نے اسپیکر کی بجائے اپنے وارث جنرل یحیٰی خان کے حوالے کردیا جنہوں نے ملک توڑ دیا پی این اے کی تحریک کی وجہ سے بھٹو ازسر نو انتخابات کرانے میں تیار ہوئے مگر جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کرلیا جس میں بھٹو کو سولی پر چڑھا دیا گیا۔ایم آر ڈی مسلسل گیارہ سال تک جنرل ضیاء الحق کے خلاف سرگرم رہی جو جنرل ضیاء الحق کے حادثے کے بعد ختم ہوئی جب ملک میں آئینی انتخابات منعقد ہوئے۔2007میں چیف جسٹس افتخار چوہدری اور ججوں کی برطرفی پر وکلاء تحریک نے جنم لیا۔جو پوری دنیا میں پھیل گئی جس میں دنیا بھر کی باریں شریک ہوگئیں۔چنانچہ وکلاء تحریک کامیاب ہوئی، عدلیہ غیر مشروط طور پر بحال ہوئی اور جنرل مشرف نہ صرف اقتدار سے راندھے درگاہ ہوئے۔بلکہ ملک بدر ہوئے جو تحریک خلیفوں کے قدموں میں لیٹے ہوئے ہیں۔وکلاء تحریک کی بنیاد امریکہ میں رکھی گئی جس کے بانی راقم لحروف اور دوسرے دوست تھے جنہوں نے درجنوں احتجاجی جلسے، جلوس سیمینار کانفرس منعقد کیں جس میں پاکستان کے جج صاحبان اور وکلاء قیادت شریک ہوتی رہی ہے۔یہی وجوہات ہیں کہ آج پاکستان کی وکلاء برداری بے باگ اور نڈر ثابت ہوئی کہ جن کی باروں کی قیادت کی آواز پر تمام مکتب فکر اور سیاستدان متفق نظر آئے ہیں جو آج کی آواز بن چکی ہے۔کہ اگر کوئی آئین پر شب خونی ہوگی تو وکلاء برداری مقابلہ کریگی۔علاوہ ازیں مزدور تحریکوں کے بانی عثمان بلوچ، میجر اسحاق کنیز فاطمہ، مرزا ابراہیم کرامت علی، زین العابدین طفیل عباس، اور دوسرے مزدور رہنما پائے جاتے ہیں جنہوںنے ملک بھر میں مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کے لئے مختلف اوقات میں تحریکیں چلائی جس کے ردعمل میں جاگیرداروں رسہ گیروں اور جنرلوں نے ملک میں انڈسٹری بند کرکے مزدوروں ٹھیکیداری نظام کے حوالے کردیا ہے۔جبکہ کسان اور ہاوی مستقل غلام بن چکے ہیں جو ملک بھر میں بکتے نظر آتے ہیں بہرحال پاکستان میں مسلسل تحریکوں سے آمریت اور بربریت مقابلہ ہوا۔کہ آج کوئی بھی مہم جو جنرل آئین توڑ کر ملک پر قبضہ نہیں کر پا رہا ہے۔بدقسمتی سے پاکستان میں آج شیخ مجیب، بھاشانی، ولی خان، بزنجو عطا اللہ مینگل، اکبر بگٹی، پروفیسر غفور، شاہ احمد نورانی، معراج محمد خان جیسے سیاستدان نظر نہیں آرہے ہیں۔جو آمروں اور جابروں کو للکار پائیں۔یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان میں کنٹرولڈ جمہوریت ہے یہاں آئین قانون ناپید ہوچکا ہے۔جو سیاستدانوں کو اتارنے اور چڑھانے میں سازشی طاقتوں کا مقابلہ نہیں کر پاتے ہیں پھر سیاستدان جنرلوں کو خوش کرنے کے لیے مصروف ہے جس میں عدلیہ بھی شامل ہے جس کی وجہ سے ملک بھر میں انتشار اور خلفشار پھیلا ہوا ہے سیاسی پارٹیوں کے کارکن منظم ہونے کی بجائے ہجوم بن چکے ہیں جو کھلاڑیوں اور اناڑیوں اور مداریوں کی ڈگڈگی پر ناچتے کودتے نظر آرہے ہیں جس سے نظریات کی بجائے فسطائیت پیدا ہو رہی ہے جو ملک کے لیے خطرے کا باعث بنے گا۔
٭٭٭٭