صنعتی انقلاب میں پیش پیش اور خود کو سب سے زیادہ مہذب قرار دینے والے ممالک کو صنعتی ترقی کے ماحول پر منفی اثرات کا ادراک بہت دیر سے ہوا۔ ابتدا میں یہی سمجھا گیا کہ زمین کے بطن میں موجود وسائل لامحدود ہیں اور کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ جب اقوامِ متحدہ کے زیرِ انتظام پہلی بین الاقوامی ماحولیاتی کانفرنس 1972 میں سوئیڈن میں منعقد ہوئی، تب بہت دیر ہوچکی تھی اور زمینی وسائل کا بے دریغ استعمال قدرت کے قائم کردہ ماحولیاتی اور حیاتیاتی توازن کو کافی حد تک بگاڑ چکا تھا۔ اس بے کراں کائنات میں ہمارے سیارے ہی کا ماحول زندگی کیلیے سازگار ہے۔ انتہائی متنوع مخلوقات کے درمیان جب انسان نے مکلف ہونے کی ذمے داری قبول کی تو گویا وہ اپنے دائرہ کار میں اس سیارہ زمیں کا نگران و نگہبان بھی قرار پایا۔ لیکن انسان فطرت کے مہیا کردہ حیاتیاتی اور ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے میں بحیثیتِ مجموعی بری طرح ناکام ہوا ہے۔ نسلِ انسانی کی ابتدا سے لے کر صنعتی انقلاب تک انسان نے ماحول کو اس قدر نقصان نہیں پہنچایا تھا جتنا صنعتی انقلاب کے بعد کی تقریبا گزشتہ دو صدیوں کی بے محابہ ترقی نے ماحول کو تباہ کیا ہے۔ اس ناقابلِ تلافی نقصان کے اثرات تمام کرہ ارض پر محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ تیزی سے وقوع پذیر ہوتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کی رفتار سست کرنا نہایت مشکل کام جبکہ اس کا رخ بدلنا ناممکن ہوچکا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہونے والی اموات میں سے تقریبا ستر لاکھ اموات کا تعلق ماحولیاتی آلودگی سے ہوتا ہے۔ پلاسٹک مصنوعات کے اندھا دھند استعمال نے سرطان کی شرح میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔ زمین تو زمین، انسانی سرگرمیوں نے سمندر اور خلا کو بھی بہت زیادہ آلودہ کیا ہے۔ آبی غذا (سمندری نباتات و حیوانات) بھی صحت بخش نہیں رہی۔ انسانی ترقی کے اس تباہ کن پہلو سے اسلام نے صدیوں پہلے خبردار کردیا تھا۔ بحر و بر میں لوگوں کے اعمال کے سبب فساد ظاہر ہوچکا ہے تا کہ وہ (خدا ) لوگوں کو ان کے بعض اعمال کی سزا دے، شاید وہ (فساد کا سبب بننے والے اعمال سے) باز آجائیں (دینِ اسلام، جو کہ دینِ فطرت ہے، نے صدیوں پہلے یہ اصول مقرر کیا کہ جو شخص درخت لگائے یا کھیتی باڑی کرے، پھر اس میں سے پرندے، چرند یا انسان کچھ کھا لیں تو وہ اس شخص کیلیے صدقہ یعنی راہِ خدا میں خرچ کرنے کی طرح باعثِ اجر ہوگا۔ شجر کاری کی اس قدر ہمت افزائی کی گئی کہ ایک حدیثِ رسول ۖ کا مفہوم ہے کہ اگر تم میں سے کوئی پودا زمین میں لگانے کیلیے تیار ہو اور وقوعِ قیامت کا لمحہ قریب آن پہنچے تو پھر بھی اسے ضرور وہ پودا لگا دینا چاہیے۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے بری طرح متاثر ہونے والے ممالک میں سرِفہرست ہے۔ مقامی صنعتیں اگرچہ کاربن کا اخراج خطرناک حد تک نہیں کرتیں لیکن ہمارے دو بڑے ہمسایہ ممالک بھارت اور چین کی دیوہیکل صنعتیں بہت زیادہ کاربن خارج کرتی ہیں اور اس طرح پاکستان میں ماحول کو بہت تیزی سے نقصان پہنچا اور پہنچ رہا ہے۔ اسی طرح حرارت میں عالمگیر اضافے سے بھی موسمیاتی خصوصیات تبدیل ہوئی ہیں۔ یہ تمام عوامل اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ اربابِ اقتدار ماحول کو مزید تباہی سے بچانے کیلیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کریں۔ بدقسمتی سے کئی دہائیوں سے وطنِ عزیز کو مخلص اور دور اندیش قیادت میسر نہیں آسکی۔ قانون ساز ایوانوں میں براجمان عوامی نمائندوں کے ملک سے اخلاص اور پیچیدہ مسائل سے نمٹنے کی قابلیتوں سے بھی ہم سب واقف ہیں۔ ایسے میں ہم میں سے ہر فرد کو چاہیے کہ اس مسئلے کی سنجیدگی کو اپنے اپنے دائرہ اختیار میں اجاگر کریں تاکہ ہم آنے والی نسلوں کیلیے ایک خوشگوار، صحت مند اور قابلِ رہائش پاکستان چھوڑ کر جائیں۔ اس فساد اور خرابی کے زمرے میں انسانی ترقی کے نتیجے میں ہونے والی ماحولیاتی تباہی بھی شامل ہے۔ اصلاح کا متضاد ہے فساد۔ اصلاح سنوارنے اور نکھارنے کے عمل کو کہتے ہیں جبکہ فساد کا نتیجہ خرابی اور آلودگی کی صورت میں نکلتا ہے۔ ماحول کو نکھارنے میں نباتات کا کردار اور اہمیت سب جانتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ درخت اور پودے لگانے کی حوصلہ افزائی کیلیے دنیا بھر میں شجرکاری کے دن متعین کیے گئے ہیں۔
٭٭٭