پاکستان میں بیمار افراد کی دیکھ بھال کا نظام پیشہ وارانہ مہارت و اخلاقیات سے مزین ڈاکٹروں ، تربیت یافتہ نرسوں اور دیگر ماہرین صحت کی کمی کا شکار ہے۔ صحت کا نظام خصوصی عملے کی کمی، اہلکاروں کی غلط تقسیم، پالیسیوں کی عدم موجودگی، ناکافی تربیت، عملے کی ترقی کے سخت ضابطوں کا شکار ہے جس کا میرٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے،حال ہی میں لیڈی ہیلتھ ورکر نے لاہور میں احتجاج کیا ہے ۔ان کی ترقی کا نظام نقائص سے بھرپور ہے ۔سرکاری سرپرستی میں پولیو کی ٹیمیں مستقل کام کرتی رہتی ہیں لیکن ان کے لئے محفوظ نظام ترتیب نہیں دیا جا سکا۔ڈینگی اور کورونا کے انسداد کے لئے کام کرنے والا عملہ الگ مسائل کا شکار ہے۔ صحت کے شعبہ کی پیداواری صلاحیت اور صارفین کے اطمینان کی سطح کم ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر پلیتھا نے پاکستان میں صحت کے شعبہ میں انسانی وسائل کی کمی کی نشاندہی کی ہے ۔یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور کے دورے کے موقع پر انہوں نے کہا کہ پاکستان کو معیاری ڈاکٹر تیار کرنا ہوں گے۔ڈاکٹر پلیتھا کے علم میں شائد یہ تفصیل نہیں کہ صحت کے شعبہ سے فائدہ اٹھانے والوں میں غریب اور متوسط طبقات کا حصہ تیس فیصد سے زیادہ نہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو دو لاکھ نرسوں کی ضرورت ہے، دوسری طرف حالت یہ ہے کہ نرسنگ سکولوں میں داخلے کھولے نہیں جاتے ۔ شعبہ صحت کے لئے درکار افرادی قوت کے مسائل کا تعلق منصوبہ بندی، پیداوار اور انتظام سے ہے یہ معاملہ انسانی وسائل کی طلب اور رسد سے متعلق ہیلتھ پالیسی کی ترجیحات پر مبنی ہے۔نظام کی مجوزہ تنظیمی تبدیلیاں، منصوبہ بند ترقی ، افرادی قوت کی تربیت، آبادی کی ضروریات کو مساوات اور کارکردگی کے اصولوں کے تحت بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔پاکستان میں صحت کی دیکھ بھال کا نظام بہت کمزور ہے ۔ صحت کی پالیسیاں بنانا، ملینیم ڈویلپمنٹ گولز پروگرام میں حصہ لینا، متبادل پروگرام شروع کرنا ، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ متعارف کرانا، بنیادی ہیلتھ یونٹ اور رورل ہیلتھ سنٹرز بنا کر انسانی وسائل کی ترقی اور انفراسٹرکچر کو بہتر بنانا چیلنج بن چکے ہیں۔ یہ تمام پروگرام اپنے دائرہ کار میں بہت محدود ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا صحت کی دیکھ بھال کا نظام اب بھی زیادہ موثر نہیں ہے۔ ناقص گورننس،عدم رسائی ،وسائل کی غیر مساوی تقسیم، ہیلتھ انفارمیشن مینجمنٹ سسٹم کا ناقص معیار، صحت کے نظام میں بدعنوانی، ہیلتھ پالیسی اور ہیلتھ پلاننگ میں مانیٹرنگ کا فقدان اور تربیت یافتہ عملے کی کمی جیسی بے شمار کمزوریاں ہیں۔ان خرابیوں کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے صحت کے شعبے میں بہت سست رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے ۔ اس لیے حکومت کو ہیلتھ کئیر کے موجودہ نظام کو تبدیل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔صحت کا شعبہ کئی پہلو سے اہمیت رکھتا ہے۔مریض کا علاج، افرادی قوت ، ہیلتھ ٹیکنالوجی کے ساتھ ہیلتھ اکنامکس ایک اطلاقی شعبہ ہے جو درپیش مسائل کی منظم اور سخت جانچ کی ذمہ داری انجام دیتا ہے۔ صارف، پیدا کار اور معاشی نظریات کو ہیلتھ کئیر سسٹم کا حصہ بناتا ہے ۔ صحت کی معاشیات کا مقصد مریضوںکی دیکھ بھال کرنے والوں، سرکاری اور نجی تنظیموں اور فیصلہ سازی میں حکومتوں کے رویے کو سمجھنا ہے۔ہیلتھ اکنامکس کا ہسپتالوں اور کلینکوں، منظم نگہداشت اور صحت عامہ کے فروغ کی سرگرمیوں کے مطالعہ کے ذریعے صحت مند طرز زندگی اور صحت کے مثبت نتائج کو فروغ دینے کے لیے کیا جاتا ہے۔ نقل مکانی، بے گھر افراد، موسمیاتی تبدیلی، ویکسین تک رسائی، چوٹیں، موٹاپا اور وبائی امراض سے نمٹنے کے لیے ہیلتھ اکنامکس کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے آٹھ ملینیم ڈویلپمنٹ گولز (MGDs) وقت کے پابند اور مقدار کے مطابق عالمی اہداف تھے جن میں انتہائی غربت کی شرح کو نصف کرنے سے لے کر 2015 تک یونیورسل پرائمری تعلیم فراہم کرنا شامل تھا۔مزید یہ کہ جو لوگ ملکی اداروں سے تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ نا مناسب حالات سے پریشان ہو کر بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں ۔یوں کوٹے پر ہونے والے داخلوں کے نتائج مثبت صورت میں نہیں مل رہے۔صحت کا شعبہ پریشان حال لوگوں کا درد کم کرتا ہے ،ملک میں ایسے مریضوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جو ہر سال صرف اس وجہ سے مر جاتے ہیں کہ انہیں ڈاکٹر میسر نہیں ہوتا،ہزاروں مائیں تربیت یافتہ عملہ نہ ہونے سے دوران زچگی دم توڑ دیتی ہیں ۔اس شعبے کی استعداد کم ہونے یا افرادی قوت کی قلت کے باعث اگر عام آدمی مطمئین نہیں ہو رہا تو حکومت کے لئے فکر کی بات ہونی چاہئے۔ پاکستان نے سن 2000 میں MDGs پر دستخط کیے تاہم پالیسی کے متعلق تمام بیان بازی کے باوجود بجٹ اور عمل درآمد کے وعدوں اور اس کے بعد کی کوششوں کے نتیجے میں ملک کا ٹریک ریکارڈ اہداف سے کم رہا جس کی وجہ سے پاکستان ان ممالک میں سر فہرست ہے جو انسانی ترقی کے اشاریہ میں سب سے نیچے ہیں۔ دستخط کنندہ کے طور پر پاکستان اگلے 15 سالوں میں اپنے ترقیاتی ایجنڈے کو ہم آہنگ کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ لیکن حکومتی پالیسیوں کا جائزہ لینے والوں کا کہنا ہے کہ ایم ڈی جی کے پچھلے 40 اشاریوں کے شواہد پاکستان کی ایس ڈی جیز حاصل کرنے کی صلاحیت کو روکتے ہیں۔سارا نظام بیں الاقوامی اہداف اور قومی ترجیحات کے مطابق استعداد دکھانے سے محروم ہے ۔اس امر کی ذمہ داری آخر حکومت کو اٹھانا ہو گی۔ پاکستان میں ڈاکٹروں کی تعداد مریضوں کی مجموعی تعداد کے تناسب سے کہیں کم ہے، نرسوں ، پیرا میڈیکل سٹاف اور ٹیکنیشنز کی کمی ہے۔
٭٭٭