پاکستان میں بغاوتوں کا موازنہ!!!

0
124
رمضان رانا
رمضان رانا

پاکستان کی تاریخ بغاوتی مقدمات سے بھری پڑی ہے کہ جس میں غاصب اور آمر جنرلوں نے سیاستدانوں پر من گھڑت اور جھوٹے بغاوتی مقدمات بنا کر اس جیلوں میں ٹھونسے رکھا جس کی وجہ سے آج تک ملک میں جمہوری اور آئینی نظام قائم نہ ہوسکا۔ پاکستان میں سب سے پہلے1951میں راولپنڈی سازش کیس بنایا گیا جس میں آرمی چیف آف اسٹاف جنرل اکبر، بیگم نسیم اکبر، فیض احمد فیض، بیرسٹر سجاد ظہیر میجر اسحاق، کیپٹن پوشنی کے علاوہ دو درجن بھر فوجی افسران شامل تھے جن پر الزام تھا کہ وہ وزیراعظم لیاقت علی خان کا تختہ الٹ کر باتیں بازو کی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے جبکہ کیس الٹا تھا کہ بعض فوجی افسران پر بھارت کا کشمیر کا قبضہ گراں گزر رہا تھا جو کشمیر پر حملہ کرنے کا سوچ رہے تھے جس کو بغاوت کا نام دیا گیا جس کی پاداش میں فوجی افسران اور ترقی پسند دانشوروں اور شاعروں کو جیلوں میں قید رکھا گیا۔ دوسرا بغاوتی مقدمہ کرتا سازش تیار کیا گیا کہ بھارت میں اگر تلہ کے مقام پر مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا جس میں عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب شامل ہیں چنانچہ شیخ مجیب اور دوسرے34لوگوں کو1968میں اگر تلہ سازش کیس میں قید کر دیا گیا جس کے خلاف جنرل ایوب خان کے خلاف ایک بہت بڑی تحریک نے جنم لیا جنہوں نے اپنا اقتدار بچانے کے لئے اگر تلہ سازش کیس واپس لیا مگر اقتدار پھر بھی نہ بچ سکا یہ وہ زمانہ تھا جب مجیب اور بھٹو جیل میں بند تھے جن کی رہائی کے لیے ایئرمارشل اصغر خان تحریک چلا رہے تھے۔ جن کی تحریک کی بدولت سیاستدانوں کو رہائی ملی تھی۔ جو گول میز کانفرنس کا باعث بنی مگر جنرل ایوب خان نے اقتدار اپنے دوسرے جنرل یحییٰ خان کے حوالے کردیا جنہوں نے جنرل ایوب خان کے نقش قدم پر چل کر16دسمبر1971کو ملک دولخت کر ڈالا۔ تیسرا بغاوتی مقدمہ1975میں حیدر آباد سازش کیس بنایا گیا جس میں الزام لگایا کہ نیشنل عوامی پارٹی عراق سے ہتھیار لے کر صوبہ سرحد اور بلوچستان الگ کرنا چاہتی ہے جس پر بغاوتی مقدمہ بنا کر پارٹی پر پابندی عائد اور پوری قیادت ولی خان، غوث بخش بزنجو، اجمل خٹک، خیربخش مری بشیر محمد مری، افسراسیاب خٹک، معراج محمد خان، حبیب جالب نجم سیٹھی اور درجنوں لوگ شامل تھے جس کا راقم الحروف گواہ ہے کہ یہ مقدمہ جھوٹ اور من گھڑت مفروضوں پر مبنی تھا جس سے پاکستان کو بہت بڑا جمہوری نقصان پہنچا یہی وہ جوہات تھیں پاکستان میں جمہوریت دفن کرکے فاشنرم نافذ ہوچکا تھا جس کا فائدہ اٹھا کر جنرل ضیاء الحق تیسرا مارشلا نافذ کرکے آئین معطل اور بھٹو کو پھانسی دے دی تھی۔ چوتھا بغاوتی مقدمہ طیارہ سازش اغواء بنایا گیا جس میں جنرل ضیاء الحق نے اس طیارہ اغوا میں الذوالفقار نامی تنظیم کو ملوث کرکے پاکستان میں تمام سیاسی کارکنوں اور رہنمائوں کو بیٹھا کر ملک بدر کر دیا گیا تھا جس پر مرتضے بھٹو، شاہ نواز بھٹو کے علاوہ موجودہ وزیر طارق بشیر چیمہ، پرویز رشید، سرور احسن اکرم، قائم خانی جان عالم شاہ محمد شاہ اور درجنوں لوگ شامل تھے جس میں بعض بیرون ملک آباد ہوگئے اور بعض واپس آگئے تھے۔ پانچویں بغاوتی مقدمہ نوازشریف پر طیارہ اغواء کا بنایا گیا تھا کہ جنہوں نے جنرل مشرف کا زمین پر بیٹھ کر طیارے میں سوار بمعہ بشمول جنرل مشرف کا طیارہ اغوا کرنے کی کوشش کی جس کی بنا پر پاکستان کی سویلین حکومت کا تختہ الٹ کر قبضہ کیا گیا۔ وزیراعظم نوازشریف کو پہلے پھانسی، عمر قید اور پھر جلا وطن کیا گیا جو آج تک جنرلوں کی سویلین حکومت میں مداخلت کی وجہ سے جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں کہ آج بھی وہ اپنی پارٹی کی حکومت کے باوجود واپس ملک نہیں آسکتے ہیں۔چھٹا مقدمہ بغاوتی اکبر بگٹی پر بنایا گیا جنہوں نے ایک بے بس خاتون ڈاکٹر شازیہ کے ریپ میں ملوث فوجی افسر کے خلاف احتجاج کیا تھا جن کو آخر کار پساڑ میں پناہ گزین80سالہ بزرگ رہنما کو جنرل مشرف کے بم مار کر دفن کردیا تھا جس کے بعد بلوچستان میں ایسی بے چینی پھیلی جو آج تک قابو سے باہر ہے۔ ساتواں بغاوتی مقدمہ الطاف حسین کے خلاف جن کے جنرلوں کے خلاف بیان پر بنایا گیا جن پر پاکستان کے میڈیا پر کسی قسم کا بیان یا اعلان نشر کرنا ممنوع قرار دیا گیا۔ آٹھواں بغاوتی مقدمہ وزیرستان کے رہنما وزیراعلیٰ ایم این اے پر قائم ہوا جو پالتو دہشت گردوں کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں جن کو عدالتوں سے ضمانت پر رہا ہونے کے باوجود رہانس کیا جارہا ہے نویں بغاوتی مقدمہ مسلم لیگ نون کے رہنما میاں لطیف کے خلاف قائم ہوا کہ جنہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی ومعاملات میں مداخلت کی مخالفت کر رکھی ہے جن پر طرح طرح کا تشدد کیا ہے جس کا وہ اکثر وبیشتر ذکر کرتے نظر آتے ہیں۔ دسویں بغاوتی مقدمہ اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلے عمران خان کے چہیتے پر کلام بدتمیز اور بدزبان امریکہ سے لے پالک شہباز گل پر قائم ہوا ہے جنہوں نے باقاعدہ تحریری بیان میں پاکستان کی ٹی وی اے آر وائی پر پندرہ منٹ تک پاک فوج کے جوانوں کو ان کے اعلی افسروں کے خلاف اکساتا رہا ہے جس کی ماضی میں کوئی بغاوت کی مثال نہیں ملتی ہے کہ کسی سیاستدان نے فوج کے جوانو ں سے مخاطب ہو کر اپنے اعلی افسروں کے خلاف اعلان بغاوت کیا ہو جس پر سونے پر سہاگہ کہ عدالتیں دو دو دن کا ریمانڈ دے کر شہباز گل کی تحقیقات اور تفتیش کو متنازعہ بنا کر چکی ہے جس کے باوجود عمران خان نے عدلیہ کو دھمکیاں دینا شروع کردی ہیں جس پر سپریم کورٹ کا چیف جسٹس خاموش تماشائی بنا ہوا ہے جو دوسرے سیاستدانوں کے خلاف رات کو سوتے وقت ایکشن لیتا نظر آتا ہے۔ بہرحال پاکستان میں بغاوتوں کا موازنہ بیان کرنے کا مقصد اور مطلب یہ ہے کہ جب کوئی بغاوت نہ تھی تو بغاوت قرار دیا گیا آج حقیقی بغاوت برپا ہے کہ جس میں پاکستان کو تین حصوں اور فوج کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے عمران خان اعلانات کر رہے ہیں جس کا آغاز ان کے چیف آف اسٹاف شہبازگل نے کر دیا ہے۔ تمام بغاوت کیا ہوگا یا پھر موجودہ حکومت کا خاتمہ اور پھانسیوں کا سلسلہ جاری ہونے جارہا ہے۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here