قدرتی آفات اور پاکستان!!!

0
84

پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلیے عالمی سطح پر کیا اقدامات ہورہے ہیں اور مختلف ممالک پاکستان کی کس قدر معاونت کررہے ہیں، وہ سب اپنی جگہ، مگر نجی شعبہ اس قدرتی آفت کے بعد متاثرین کی کوئی مدد کرسکتا ہے؟ اور کیا ایسا انفرااسٹرکچر بنایا جاسکتا ہے جس سے پاکستان کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچایا جاسکے؟ اس کا جواب انفرا ضامن کی جانب سے منعقدہ سیمینار میں دیا گیا۔حالیہ دنوں پاکستان نے تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا کیا اور اب ہماری ساری توجہ سیلاب متاثرین اور ان کی بحالی پر مرکوز ہے۔ مگر پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بھی انتہائی موسمی حالات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ جون اور جولائی میں مون سون بارشوں میں سیلاب سے متاثرہ سندھ اور بلوچستان کے علاقوں میں تاحال پانی بڑی مقدار میں کھڑا ہے اور سرد موسم کے آنے کے باوجود نہ صرف لوگوں کے گھروں کی تعمیر نو یا مرمت ہوسکی ہے بلکہ سردی سے بچا کیلیے ان متاثرین کے پاس کوئی ذریعہ بھی نہیں۔گزشتہ صدی کے اختتام اور موجودہ صدی کے آغاز سے پاکستان کو تواتر سے قدرتی آفات کا سامنا ہے اور ان آفات کی شدت دن بہ دن بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ ان میں سے بہت سی قدرتی آفات کو ہم نے بھلا دیا، مگر بہت سی قدرتی آفات ایسی ہیں جن سے سبق سیکھ کر پاکستان نے ہنگامی حالات سے نمٹنے کی تیاری کی ہے۔ مگر ہر گزرتے دن کے ساتھ ہی پاکستان کو شدید ہوتی ہوئی قدرتی آفات کا سامنا ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں اوراس سے بحالی پر بات کرنے سے قبل پڑھنے والوں کو اس سال موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے رونما ہونے والے چند انتہائی اہم واقعات کی جانب بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ اس سال کے آغاز پر سیاحتی مقام مری میں سیاحوں کی ہلاکت کا معاملہ تو آپ کو یاد ہی ہوگا، جس میں سیاح نہ صرف جان سے گئے بلکہ جو بچ گئے ان کی حالت بھی کئی دن تک سنبھل نہ پائی۔ اس سرد ترین موسم کے بعد یہ بات سامنے آئی تھی کہ 2022 تاریخ کا گرم ترین سال ہوگا۔ اسی گرمی کی وجہ سے کراچی میں آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ گرمی کی شدت صرف شہروں تک محدود نہیں رہی تھی بلکہ اس نے پاکستان میں جنگلات کو بری طرح متاثر کیا۔ جنگلوں میں لگی آگ نے حالات کو مزید مخدوش بنادیا۔ پاکستان میں پہلے ہی جنگلات کا رقبہ بہت کم ہے مگر حالیہ گرمیوں میں جنگلات میں لگنے والی آگ نے بلوچستان کے شیرانی جنگل میں لگے چلغوزے کے درختوں کو بری طرح سے نقصان پہنچایا اور یہ آگ ایک ماہ سے زائد عرصے تک لگی رہی جس میں سیکڑوں سال پرانے درخت بھی جل کر راکھ ہوگئے، یعنی ایسی آگ لگنے کا واقعہ کم از کم دو سو سال کے بعد ہی رونما ہوا ہے۔ اس آگ سے مقامی افراد جو کہ چلغوزے کی فروخت سے روزگار کماتے تھے، کو نقصان اٹھانا پڑا۔ خیبرپختونخوا میں بھی جنگل میں آگ لگی جس نے قیمتی درختوں کو نقصان پہنچایا اور سوات میں تحریک انصاف کے بلین ٹری سونامی میں لگائے گئے درخت بھی جل گئے۔ گرمی کی شدت سے آگ لگنے کے واقعات صرف سوات اور بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں ہی رونما نہیں ہوئے بلکہ وفاق درالحکومت بھی اس کی لپیٹ سے محفوظ نہیں رہا۔ اسلام اباد سے متصل نیشنل پارک مارگلہ ہلز پر بھی 60 سے زائد مقامات پر شدید آگ لگی جس کو بجھانے کیلیے 20 ہیلی کاپٹرز استعمال ہوئے۔ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان کو نہ صرف شدید بڑھتی گرمی اور شدید ہوتی سردیوں کا ہی سامنا نہیں بلکہ پاکستان، جس کے پاس دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام بھی موجود ہے، کے بعض علاقوں میں بدترین قحط کا بھی سامنا ہے۔ چولستان اور تھرپارکر میں حالیہ مون سون سے قبل قحط سالی کا سامنا تھا۔ صرف چولستان میں 1200 ایسے تالاب، جنہیں مقامی زبان میں ٹوبے کہا جاتا ہے، میں سے نوے فیصد خشک ہوئے اور تقریبا 2 لاکھ کی آبادی اپنے 20 لاکھ مویشیوں کے ساتھ بوند بوند پانی کو ترس گئی۔ یعنی اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے قحط، خشک سالی، شدید گرمی کی لہر، بڑھتی ہوئی سردیوں، جنگلات میں آگ، اربن فلڈنگ، کلاڈ برسٹ اور اس جیسے کئی مسائل کا سامنا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ اب بات کرتے ہیں موجودہ سیلاب کی، جس کے اثرات سے اس وقت پوری قوم اور عالمی برادری مل کر مقابلہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ لیکن پھر بھی تاحال اس سیلاب کی آفات سے لوگوں کو نکالنے میں زیادہ امید افزا پیش رفت نہیں ہوسکی۔ سندھ اور بلوچستان کے بعض اضلاع میں تاحال پانی کھڑا ہے۔ مجھے بھی بطور رپورٹر سیلاب کی کوریج کیلیے سندھ کے علاقے سعیدآباد جانے کا موقع ملا تو وہاں کے حالات دیکھ کر دل بجھ سا گیا۔ ستمبر کے مہینے میں گرمی کی شدت اس قدر تھی کہ دھوپ میں کیا، سائے میں بھی پسینہ بہہ رہا تھا۔ دریائے سندھ عبور کرتے ہوئے دیکھا کہ پانی دریا کی گنجائش سے بھی زیادہ ہے اور اردگرد کے علاقے بھی زیر آب ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے قرضوں کو معاف کرنے یا پھر ان قرضوں کو پاکستان کے اندر ہی سیلاب اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے اثرات سے بچا کیلیے استعمال کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ اس تجویز کا بعد ازاں اقوام متحدہ کے میمو میں بھی اظہار کیا گیا کہ پاکستان کو قرضوں کی رقم اپنے ہی ملک میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلیے انفرااسٹرکچر بنانے کیلیے فراہم کردی جائے۔ جس پر عالمی سیاست میں کچھ ہلچل ہوئی ہے اور عالمی سیاست میں امریکا نے پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ چین سے قرضوں پر سہولت حاصل کرے جبکہ امریکا نے پاکستان کو دیے گئے 13 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کے قرض کی واپسی موخر کردی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیریس نے کراچی ایئرپورٹ پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے میرے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا پاکستان کو جس تباہی کا سامنا ہے وہ پاکستان کی پیدا کردہ نہیں ہے، اس کے ذمے دار جی 20 ممالک ہیں، جو عالمی سطح پر فضائی آلودگی کا 80 فیصد پیدا کرتے ہیں۔ ان کا طرز عمل ایسا ہے جیسے انہوں نے قدرت سے جنگ چھیڑ دی ہو اور قدرت نے واپس ایک شدید حملہ پاکستان پر کیا ہے، جو اس فضائی آلودگی اور درجہ حرارت میں اضافے کا ذمے دار نہیں ہے۔ یہ جی 20 ملکوں کی ذمے داری ہے کہ وہ ماحولیاتی تباہی کا شکار پاکستان اور اس جیسے دیگر ممالک کی معاونت کریں۔ مگر ابھی تک جی 20 ملکوں نے کوئی ایسا مالیاتی نظام وضع نہیں کیا جس میں وہ ترقی پذیر ملکوں کی، جو ماحولیاتی تبدیلی سے متاثر ہوئے ہیں، معاونت کرسکیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here