پاکستان میں عسکری قیادت وہ تو نہ آ سکی جس کی پلاننگ کی گئی تھی مگر بڑی چالبازیوں کے بعد بالآخر نئے آرمی چیف کا تقرر ہوگیا۔ آج مجھے قومی اسمبلی میں خواجہ سعد رفیق کی کی گئی وہ تقریر یاد آرہی ہے جس میں انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے اراکین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ” آپ لوگ اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ آپ کے علاوہ کوئی آپشن موجود نہیں، آپشن ہر وقت موجود ہوتا ہے مگر اسٹیبلشمنٹ کو یہ دونوں (یعنی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی آپشن اس وقت دستیاب نہیں ہیں۔ خواجہ سعد رفیق نے جس وقت یہ تقریر کی تھی اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ پاکستان میں موجود صحافیوں سمیت ایوان اقتدار کی غلام گردشوں کو سمجھنے والی شخصیات کو بھی اس بات کا یقین نہیں تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے جس جماعت کو اتنی محنت کے ساتھ بنایا اور ان کی ہر ناکامی کو کامیابی بناکر پیش کرنے کے لیے صبح شام زور لگایا جاتا ہے، اس جماعت کو بھلا کس طرح چھوڑ کر دوبارہ پاکستان پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ نون کے ساتھ اپنے روابط بحال کرے گی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان تحریک انصاف اور فوجی جنرلوں کی باہمی دوستی اعتماد اور مضبوطی کے کوہ ہمالیہ پر رقص کیا کرتی تھی۔ سادہ لفظوں میں کہاں جائے تو ایک تاثر یہ تھا کہ پاکستان تحریک انصاف تو اسٹیج پر صرف اداکاری کر رہی ہے جبکہ پردہ ڈائریکٹر اور پروڈیوسر فوجی جرنیل ہیں۔ اس نظام کو کبھی ہائبرڈ تو کبھی سول مارشل لا کے نام سے تعبیر کیا جاتا رہا۔مختصرا پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان بی ہر وقت پاک فوج زندہ باد فوجی جرنیل پائندہ باد کے نعروں کا ورد کرتے نظر آتے تھے۔ فوج اور حکومت ایک پیج پر اس قدر ہر واضح نظر آتے تھے کہ ان کے درمیان اگلے کئی برسوں تک کوئی دراڑیں پڑتی ہوئی نظر نہیں آتی تھی۔ نا صرف یہ بلکہ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے بعد مستقبل کے اعلی عسکری عہدیداروں کا فیصلہ بھی کر لیا گیاتھا، آرمی چیف جنرل فیض حمید اور ڈی جی آئی ایس آئی آصف غفور کے صرف بینر لگانا باقی رہ گئے تھے۔فلم انڈسٹری میں کہا جاتا ہے کہ ضروری نہیں جس ڈائریکٹر کی ایک فلم کامیاب ہو اس کی دوسری فلم بھی کامیاب ہوگئی۔عمران پروجیکٹ کے فوجی جرنیلوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا، عمران خان کو لانچ کرنے کی فلم تو بڑی کامیاب رہی مگر عمران خان پارٹ ٹو بنانے کی کوشش پوری طرح فلاپ ہو کر رہ گئی۔فوٹو بنانے کے تمام ڈائریکٹرز اور پروڈیوسرز کی امیدیں اس وقت دھری کی دھری رہ گئی جب دیگر فوجی جرنیلوں کی فلم کامیاب ہوئی، ماضی میں دستیاب نہ ہونے والے آپشن نے حامی بھر لی اور خواجہ سعد رفیق نے چپ سادھ لی۔ گزشتہ آٹھ سالوں میں کم از کم یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی پاکستان میں سیاست کے میدان کے کھلاڑی اور حقیقی نظام کو چلانے والے ڈائریکٹر اور ہیں، مگر ابھی بہت وقت لگے گا کہ ہم نے کھل کر یہ مت آئیے ہم ان ڈائریکٹرز کو نظام کی خرابیوں اور ناکامیوں کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا جو سیاست کے میدان کے کھلاڑیوں کو ناکام بنانے کے کام کو اپنا فریضہ جانتے ہیں۔
٭٭٭