فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
72

محترم قارئین! شیخ الاسلام، بعدازانبیائ، افضل انام، خلیفہ پیغمبر، راہنماء وامام اہل تجرید، پیشوائے اہل تغرید ابوبکر عبداللہ بن عثمان الصدیق رضی اللہ عنھا ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کی کرامات مشہور ہیں اور معاملات وحقائق میں آپ کے دلائل اور ارشادات ظاہر ہیں۔ مشائخ آپ کو اہل مشاہدہ کا سرخیل مانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ سے روایت وحکایت بہت تھوڑی تعداد میں مروی ہیں۔ اسرار و رموز کے امام اور پیشوا آپ ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دین میں شدت اور سختی کی بنا پر مجاہدہ کا امام سمجھا جاتا ہے۔ صحیح احادیث میں آیا ہے اور اہل علم کے ہاں یہ واقعہ بہت مشہور ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رات کے وقت نماز ادا فرماتے تو قرآن مجید آہستہ آہستہ پڑھتے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ بلند آواز سے پڑھتے حضور نبی اکرم ۖ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ آہستہ کیوں پڑھتے ہیں؟ آپ نے عرض کی: اس وجہ سے کہ میں جانتا ہوں کہ جسے میں پکار رہا ہوں وہ دور نہیں اور اس کے سامنے آہستہ یا بلند پڑھنا برابر ہے۔ یہی سوال آپ ۖ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں بلند آواز سے پڑھ کر سونے والوں کو جگاتا ہوں اور شیطان کو بھگاتا ہوں” یہ مجاہدے کی بات ہے، جبکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اشارہ مشاہدے کی طرف تھا۔ اور مجاہدے کا مقام مشاہدے کے سامنے وہ ہی ہے جو قطرے کا سمندر کے سامنے ہے۔ اسی لئے حضورۖ نے ارشاد فرمایا: ”اے عمر! تم ابوبکر کی نیکیوں میں سے ایک نیکی ہو” تو جو شخص اسلام کے لئے باعث عزو وقار ہے اگر وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نیکیوں سے ایک نیکی کے برابر ہے تو باقی دنیا کس شمار وقطار میں ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے ”ہمارا ٹھکانہ فانی ہے، ہمارے احوال عارضی ہیں، ہمارے سانس گنے ہوئے ہیں اور ہماری سُستی نمایاں ہے۔”تو ظاہری بات ہے کہ فانی گھر کی تعمیر جہالت ہے، عارضی احوال پر اعتماد بیوقوفی ہے، گنتی کے سانسوں پر دل لگانا غفلت ہے جبکہ کاہلی و سُستی کو دین سمجھنا خیانت ہے گویا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آگاہ فرمایا کہ دنیا اور اسباب دنیا اس قابل نہیں کہ ان سے دل لگایا جائے کیونکہ جو شخص فانی اشیاء سے دل لگائے گا وہ حقائق سے بے خبر رہے گا۔کیونکہ نفس اور دنیا طالب حق کے لئے حجاب ہیں۔ اس لئے دوستان حق ہمیشہ ان سے دور رہتے ہیں جب انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ یہ چیزیں عاریتاً ملی ہیں اور مستعار چیزیں دوسروں کی ہوتی ہیں تو انہوں نے دوسرے کی ملکیت میں تعریف کرنا چھوڑ دیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی مناجات میں ہمیشہ یہی کہتے تھے: ”اے اللہ! میرے لئے دنیا کو فراخ کر اور مجھے اس سے خالی رکھ” یعنی پہلے میرے لئے دنیا فراخ کر پھر مجھے اس کی آفتوں سے بچا۔ دنیا اس لئے فراخ کرکہ اس پر میں تیرا شکر اس لئے ادا کروں کہ تو نے مجھے عطا فرمایا اور اس کے بعد مجھے توفیق دے تاکہ تیری خاطر اسے چھوڑ دوں۔ اور مجھے درجہ شکر اور درجہ اتفاق فی سبیل اللہ حاصل ہو۔ اور مقام صبر بھی ملے۔ میرا فقر اضطراری نہ ہو بلکہ اختیاری ہو۔ یعنی میں سب کچھ ہوتے ہوئے خود فقر کو اختیار کروں۔ زہری کا بیان ہے کہ جب لوگوں نے آپ سے خلافت کی بیعت کی تو آپ منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور اپنے خطبے میں فرمایا:”بخدا مجھے امارت کی نہ پہلے خواہش تھی اور نہ اب ہے، نہ کبھی رات کے وقت میرے دل میں اس کا خیال آیا نہ دن کے وقت، اور نہ ہی مجھے اس سے کوئی دلچسپی تھی اور نہ میں نے ظاہر ومخفی کبھی اللہ سے اس کا سوال کیا ہے اور نہ ہی امارت میں میرے لئے کوئی راحت ہے۔” جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو کمال صدق کے مقام پر فائز کرتا ہے اور اسے درجہ تمکین کا اعزاز عطا کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کا منتظر رہتا ہے اس وقت اس پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ اگر اس کے فقیر ہونے کا حکم ہوتا ہے تو وہ فقیر ہوجاتا ہے۔ اگر امیر ہونے کا حکم ہوتا ہے تو وہ میرا ہوجاتا ہے۔ اس میں اپنے تصرف اور اختیار کو راہ نہیں دیتا۔ جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ابتداء میں تسلیم کا مقام اختیار کیا تو اسے آخر تک نبھایا۔ پس صوفیائے کرام تجدید وتمکین، فقر کی مجبت اور ترک جاہ و ریاست میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پیروی کرتے ہیں۔ کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ جہاں عام مسلمانوں کے دین میں پیشوا وامام ہیں۔ وہاں بالخصوص صوفیائے کرام کے بھی طریقت میں رہنمائو قائد ہیں۔ امام احمد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا:”جیسا مجھے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مال نے نفع دیا ہے ایسا مجھے کسی کے مال نے نفع نہیں دیا۔” یہ سن کر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رو پڑے اور عرض کیا:یارسول اللہ ! میں اور میرا مال آپ ۖ ہی کے لئے ہیں۔ ابویعلیٰ نے بھی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الہ عنھا سے ایسا ہی روایت کیا ہے۔ ترمذی شریف میں ہے کہ رسول اللہۖ نے فرمایا:”جس کسی نے ہم پر احسان کیا ہے ہم نے اس عوض اور بدلہ دے دیا ہے مگر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے جو احسان پر ہیں۔ ان کا بدلہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن دے گا اور جیسا نفع مجھے ابوبکر کے مال نے دیا ہے کسی کے مال نے نہیں دیا، اللہ تعالیٰ ہمیں حقائق کو سمجھ کر عمل کی توفیق دے(آمین)۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here