پاکستان کے سیاسی حالات اور معاشی تباہی کے معاملات انتشار و بے یقینی کیساتھ جس حد کو پہنچ چکے ہیں وہ ہر پاکستانی کیلئے غالب کی زبان میں ”ہیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں” کی مکمل تصویر ہے۔ ان حالات کی وجہ کیا ہے، اس سے واقف ہر وہ ذی شعور ہے جسے پاکستان سے تھوڑی بھی محبت اور وابستگی ہے۔ پاکستان کا بنیادی مسئلہ سیاسی عدم استحکام اور اپنے مفادات کیلئے غیروں کے ہاتھوں میں کھیلنا اور ان کے اشاروں پر ناچنا ہے۔ یہ کھیل محض حالیہ دور ہی نہیں بلکہ 75 سالہ نارسا اقدامات و عمل کا شاخسانہ ہے۔ مثل مشہور ہے کہ پتھر پر بھی مسلسل قطرہ قطرہ پانی پڑتا رہے تو وہ پتھر بھی ایک دن پاش پاش ہو جاتا ہے۔ کچھ یہی صورت وطن عزیز کے سیاسی عدم استحکام کی ہے جہاں غرض کی غلام سیاسی اشرافیہ بیرونی و گھر کے آقائوں کی دست نگر رہی ہے اور جب بھی کسی رہنما نے اس غلامی سے انکار کی جرأت کی ہے تو اسے نشانۂ عبرت بنا دیا گیا ہے۔ اس سلسلے کا تازہ ترین ٹارگٹ عمران خان ہے جسے ابسیلویٹلی ناٹ کہنے پر عدم اعتماد کے توسط سے اقتدار سے محروم کر دیا گیا۔ اس اقدام کے بعد وطن عزیز گزشتہ دس ماہ سے جس سیاسی ہیجان اور معاشی بحران سے دوچار ہے اور جس طرح عوام کو انتشار، مایوسی کا سامنا ہے اسے قومی، سیاسی تباہی اور عوام کی بربادی کا پیش خیمہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ امپورٹڈ حکومت کی نا اہلی و گمراہی کے باعث عوام کی نفرت ان حکمرانوں کیلئے انتہاء کو پہنچ چکی ہے اور پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ اقتدار سے بے دخل کیا گیا عمران خان ساری قوم کی محبوبیت کا مرکز بن چکا ہے۔ ملک و عوام کی موجودہ صورتحال کے سبب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ موجودہ حکومت جمہوری و آئینی اصولوں کے مطابق وطن عزیز میں انتخابات کے توسط سے حالات کی بہتری کی جانب پیشقدمی کرتی اور حقیقی عوامی نمائندگی کے حل کی جانب بڑھتی لیکن افسوس کہ اقتدار سے چمٹے رہنے کی ہوس اور بعض نادیدہ سامراجی قوتوں کے ایجنڈے کے پیش نظر عمران خان کی بھرپور عوامی سپورٹ کی وجہ سے اپنی سیاسی موت کے خوف میں موجودہ حکومت انتخابی جمہوری عمل سے بھاگ رہی ہے۔ عام انتخابات تو درکنار پنجاب و کے پی کی تحلیل شدہ اسمبلیوں میں الیکشن کرانے سے بھی بھاگ رہے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے احکامات کے باوجود کوششیں کی جا رہی ہیں کہ انتخابات کا انعقاد ناممکن بنایا جا سکے، خصوصاً عمران خان کو انتخابی عمل سے کسی نہ کسی طرح محروم کر دیا جائے، عمران پر 78 مقدمات رجسٹر کرا دیئے گئے ہیں۔ آخری مقدمہ کوئٹہ میں شہری (مفروضہ) کی جانب سے اس بات پر درج کیا گیا ہے کہ عمران کی تقریر سے جذبات مجروح ہوئے ہیں، اس سے زیادہ بودی وجہ اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ اس پر ہی اکتفاء نہیں، عمران کو سیاسی ایرینا سے باہر کرنے کیلئے ہر وہ حربہ آزمایا جا رہا ہے جس کے ذریعے اسے نا اہل کر دیا جائے، سزا سنا دی جائے یا خاکم بدہن اسے صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے۔ قابل تشویش بات یہ ہے کہ اس منفی کھیل میں آئینی، انتظامی، انصاف اور حکومت ساز افراد و ادارے بھی بغض عمرانیہ میں شریک ہیں۔ عمران کی سیکیورٹی ہٹا دی گئی ہے، عمران کو سیکیورٹی ٹھریٹس کے باعث عدم پیشی کی درخواستوں پر نا منظوری و استرداد اور وارنٹس کے اجراء کے اقدامات کیساتھ اس پر توہین عدالت و عسکری قیادت کے الزامات ہیں اور دوسری جانب مریم نواز کی بھرے جلسے میں معزز ججوں کے نام لے کر تصویری پلے کارڈز اُٹھا کر توہین کرنے پر مقدمہ درج کرنے کو مسترد کرنا اس حقیقت کی عکاس ہے کہ کھیل کیا ہو رہا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیا رموز ہیں جن کی بناء پر عمران کو پاکستان کے سیاسی نقشے سے دُور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کیا صرف اس لئے کہ عمران بولڈ ہے، کھرا ہے اور عوام کی بھاری حمایت و مقبولیت کے باعث موجودہ سیاسی مقتدرہ کی سیاست کو دفن کر دے گا یا اس کے علاوہ بھی کوئی ایسے محرکات و عوامل ہیں جن کی وجہ سے کوئی نیا منظر نامہ ترتیب دیا جا رہا ہے۔ عمران خان کی گزشتہ ہفتے اسٹیبلشمنٹ، سیاسی ایکٹرز اور دیگر آئینی و متعلقہ اداروں سے انتخابات کے انعقاد کیلئے مذاکرات کی پیشکش پر سیاسی مخالفین کا انکار تو منطقی تھا کہ اپنے پیروں پر کلہاڑی کون مارتا ہے لیکن عدالتی رویوں اور اسٹیبلشمنٹ خصوصاً آرمی چیف کا ملاقات سے انکار سمجھ سے بالا تر ہے۔ حالیہ انتشاری سیاسی و معاشی صورتحال کا تقاضہ تو یہ تھا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز ایک میز پر بیٹھ کر مسئلہ کا حل یقینی بنائیں مگر یہ طرز عمل کسی طور پر بھی قابل فہم نہیں اور بہت سے خدشات کو جنم دے رہا ہے۔ گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر شور برپا رہا کہ ایٹمی صلاحیت پر سامراجی طاقتوں سے سودا کر لیا گیا ہے، ہمارا خیال تھا کہ یہ یوٹیوبرز کا اپنی مقبولیت بڑھانے کا ہتھکنڈہ ہے لیکن سابقہ چیئرمین سینیٹ اور پیپلزپارٹی کے بانی رہنما سینیٹر میاں رضا ربانی کے اس موضوع پر جاری کردہ پریس ریلیز نے ہمیں جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ریلیز کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ پاکستان اور چین کے اسٹریٹجک تعلقات کو متاثر کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ میاں رضا ربانی نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا پاکستان کے نیوکلیائی اثاثے دبائو میں ہیں اور کیا ہمیں پاکستان کے مفاد کیخلاف اور قومی و اسٹریٹجک مفادات کے برعکس کردار ادا کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ رضا ربانی اپنے سیاسی و قومی کردار کے حامل مثبت سوچ کے حوالے سے شناخت رکھتے ہیں، ان کی جانب سے یہ سوال اٹھانا معمولی بات نہیں خصوصاً موجودہ عالمی صورتحال میں جب بھارت پاکستان اور چین سے محاذ آرائی پر اُترا ہوا ہے اور امریکہ چین سے تنازعہ اور خطہ میں اپنے رسوخ کو برقرار رکھنے کیلئے نیز افغانستان پر اپنا دبائو بڑھانے کی بھرپور کوششیں کر رہا ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ ہمارے محافظین و مقتدر ادارے ملک کے مفاد اور بقاء پر کوئی سمجھوتہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے کہ دنیا کا اہم ترین اسلامی جمہوری ملک ایٹمی صلاحٰت کا حامل چھوٹی چھوٹی ریاستوں کی شکل اختیار کر لے اور اپنی دفاعی صلاحیت سے بھی محروم ہو جائے مگر ملک و قوم کی بقاء اور سلامتی کیلئے لازم ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز متحد و مجتمع ہو کر ان کٹھنائیوں کو دور کریں۔ موجودہ حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ حالیہ سیاسی عدم استحکام کو ختم کیا جائے۔ عدم استحکام اور انتشار کا خاتمہ شفاف و منصفانہ اقدامات اور انتخابات میں ہے۔ صدر کے اعلان کے مطابق الیکشن کمیشن تو چار و ناچار الیکشن کرانے پر تیار ہے لیکن موجودہ حکومت اور متعلقہ ادارے و شعبے اس کیلئے تیار نہیں۔ نت نئے حیلوں، بہانوں، عمران خان کیخلاف مکروہ بیانیوں، مقدمات، میڈیا پر عمران خان کے خطاب پر پابندی اور میڈیا خصوصاً اے آر وائی جیسے چینلز کی بندش نہ وطن کیلئے بہتر ہے اور نہ ہی حالات کی سازگاری کیلئے مفید ہے۔ حالات جس حد کو پہنچ چکے ہیں ، وقت کی نزاکت کو نظر انداز کرنا سوائے تباہی و بربادی کے کچھ نہ ہو اور خدانخواستہ ہم اس قصر مذلت میں گر جائیں جہاں سے واپسی نا ممکن ہو جائے۔ ذمہ داروں کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ پاکستان کی بقاء ان کیلئے اہم ہے یا اپنے مفادات جو مزید تباہی کا ذریعہ بن جائیں۔
٭٭٭