محترم قارئین! ماہ رمضان المبارک بڑی برکتوں اور رحمتوں والا مہینہ ہے۔ اہل اسلام کے لئے یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ اس ماہ مقدس میں عبادت کی لذت اور چاشنی اور خشوع وخضوع میں بہت زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ اہل اسلام اس کی برکتوں سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ سحری وافطاری کا پرنور روحانی منظر جس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا اور بیس تراویح کی ادائیگی اور پھر اس میں قرآن کریم کی تکمیل اور پھر آخری راتوں میں بہت سے مقامات پر شبینہ کا اہتمام، یہ تمام پٍُرنور روحانی اجتماع بڑی رحمتوں کا باعث ہیں اور پھر آخری دس راتوں میں سنت اعتکاف اپنی مثال آپ ہے۔ روزہ ہر عاقل بالغ مرد وعورت پر فرض ہے۔اس کی ادائیگی بہت ضروری ہے ادا نہ کرنے والا سخت گنہگار ٹھہرتا ہے اور انکار کرنے والا کافر ہے۔ باقی اہل اسلام اس ماہ مقدس میں خیرات کے خصوصی پروگرام بناتے ہیں کیونکہ اس ماہ مبارک میں نیکی کی قدر و قیمت بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔ ایک فرض کا ثواب ستر فرائض کے برابر اور ایک نفل کا ثواب ایک فرض کے برابر ہوتا ہے۔ روزے کی اہمیت اور فرضیت کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے۔ ”اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیز گاری ملے۔(سورہ البقرہ آیت نمبر183پارہ نمبر2)
اس آیت کریم میں روزوں کی فرضیت کا بیان ہے۔ روزہ شرع میں اس کا نام ہے کہ مسلمان فرد ہو یا حیض ونفاس سے خالی عورت صبح صادق سے غروب آفتاب تک یہ نیت عبادت خوردونوش ومجامعت یعنی جماع ترک کرے۔ رمضان کے روزے دس شوال دو ہجری کو فرض ہوئے۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ روزے عبادت قدیمہ ہیں۔ زمانہ آدم علیہ السلام سے تمام شریعتوں میں فرض ہوتے چلے آئے ہیں۔ اگرچہ ایام واحکام مختلف تھے۔ مگر اصل روزے سب اُمتوں پر لازم رہے۔(تفسیر خزائن العرخان) تفسیر نعیمی میں مفتی احمد یار خان نعیمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ چونکہ روزے کا حکم دیا جارہا ہے جو نفس پر بھاری ہے۔ لہذا مسلمانوں کو پیارے خطاب سے نواز کر ان کی عزت افزائی اور ہمت بڑھائی۔ یا چونکہ روزے کا عبادت ہوتا عقل انسانی سے وراء ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ بھوکا پیاسا رہنا عبادت کیوں ہے؟ اسی لئے اس طرح خطاب کیا گیا۔ کہ اے ایمان والو! یعنی تم ہو مئومن اور بندہ وفادار تمہاری شان یہ ہے کہ تم ہمارا ہر حکم مانوں سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ کالج کے طلباء ہر بات عقل سے سمجھتے ہیں۔ مگر فوج و پولیس ملازم اور ہسپتال کے مریض بغیر سوچے سمجھے اطاعت کرتے ہیں۔ لہذا تم روزے پر عمل کرو۔ تفسیر نور العرفان میں ہے کہ خیال رہے اسلام میں پہلے عاشورہ یعنی دس محرم کا روزہ تھا جوکہ فرض تھا۔ یعنی سال میں ایک روزہ پھر ہر مہینے میں تین روزے فرض ہوئے۔ تیرھویں، چودھویں، اور پندرھوریں چاند کی پھر رمضان کے روزے دس شوال دو ہجری میں آیت نمبر183سے فرض کئے گئے۔ جوکہ آج تک فرض ہیں اور قیامت تک رہیں گے تمام اویان اور مثل میں روزہ معروف ہے۔ قدیم مصری یونانی، رومن اور ہندو سب روزہ رکھتے تھے موجودہ تو رات میں بھی روزہ کی تعریف ہے۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا چالیس دن کا روزہ رکھنا ثابت ہے۔ اسی طرح موجودہ انجیلوں میں بھی روزہ کو عبادت قرار دیاگیا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر روزہ فرض کیا گیا تھا۔ اسی طرح تم پر فرض کیا گیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہۖ نے ارشاد فرمایا: رمضان آگیا، برکت والا مہینہ ہے۔ اللہ نے تم پر اس کے روزے فرض کئے ہیں۔ اس میں آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔ دوزخ کے دروازے بند کئے جاتے ہیں۔ اور اس میں مرد وشیاطین قید کردیئے جاتے ہیں۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ!ۖ مجھے ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے اور جہنم سے دور رکھے۔ آپۖ نے ارشاد فرمایا کہ آپ نے بہت بڑی بات کا سوال کیا ہے اور یہ بات اس شخص کے لئے آسان ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ آسان کردے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائو۔ نماز قائم کرو، زکواة ادا کرو۔ رمضان المبارک کے روزے رکھو اور بیت اللہ شریف کا حج کرو۔
روزہ کا منشا نفس کا زور توڑنا، دل میں صفائی پیدا کرنا، فقراء ومساکین کی موافقت کرنا اور مساکین پر اپنے دل کو نرم بنانا ہے۔ برقات میں ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام زمانہ قحط میں پیٹ بھر کر کھانا نہ کھاتے تھے۔ تاکہ بھوکوں اور فاقہ مستوں کا حق نہ بھول جائیں۔ رمضان رمض سے بنا ہے۔ بمعنیٰ گرمی یا گرم چونکہ بھٹی کے میل کو صاف کرتی ہے اور صاف لوہے کو پرزہ بنا کر قیمتی کر دیتی ہے۔ اور سونے کو محبوب کے پہتے کے لائق بنا دیتی ہے اسی طرح روزہ گنہگاروں کے گناہ معاف کراتا ہے۔ نیک کار کے درجے بڑھاتا ہے۔ اور ابرار کا قرب الٰہی زیادہ کرتا ہے اس لئے اسے رمضان کہتے ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ نبی کریمۖ نے ارشاد فرمایا کہ رمضان شریف سے پہلے روزہ نہ رکھو۔چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔ اور اگر اس(چاند) کے درمیان بادل حائل ہوجائیں تو تیس دن پورے کرو۔ مقصد یہ ہے کہ جس دن رمضان کے شورع ہونے کا شک ہو اس دن روزہ نہ رکھو اور 29شعبان کو چاند دیکھو نظر آجائے تو ٹھیک ورنہ شعبان کے تیس دن پورے کرو۔ اسی طرح انتیس رمضان کو چاند دیکھو نظر آجائے تو عید ورنہ رمضان کے تیس دن پورے کرو۔ بہرحال رمضان المبارک یا برکت مہینہ ہے اسے غفلت وسستی میں گزارنا بہت بڑی بدبختی اور ہلاکت ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭
- Article
- مفسر قرآن حضرت مولانا مفتی لیاقت علی خطیب مرکزی سنی رضوی جامع مسجد جرسی سٹی، نیو جرسی یو ایس اے