ملک کے سب سے بڑے شہر کی میئر شپ پر پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے درمیان جھگڑا کئی ناگفتنی خرابیوں کا باعث بنتا نظر آ رہا ہے۔جماعت اسلامی نے کراچی میں ایک بڑا مظاہرہ کیا ہے۔جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے پیپلز پارٹی کی قیادت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کا مینڈیٹ تسلیم کیا جائے۔دوسری طرف وزیر محنت و افرادی قوت سندھ سعید غنی کا دعوی ہے کہ کراچی شہر نے بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی کو مینڈیٹ دیا ہے۔انہوں نے بلدیاتی انتخابات کے نتائج کا حوالہ دیتے ہوئے امیر جماعت اسلامی کو باور کرایا کہ پی پی کے پاس سب سے زیادہ نشستیں ہیں اس لئے میئر پیپلز پارٹی کا ہی ہو گا۔ الیکشن کمیشن پاکستان کی جانب سے اعلان کردہ نتائج کے مطابق کراچی کی کل 246 میں سے 235یونین کونسلوں کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی 93نشستیں جیت کر واحد اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ جماعت اسلامی کو 86نشستیں ملیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے حصے میں 40نشستیں آئیں۔آزاد اور جے یو آئی اراکین کی تعداد 3ہے۔تحریک لبیک کو دو نشستیں ملیں جبکہ ایم کیو ایم کی جانب سے بائیکاٹ کے باوجود اسے ایک نشست ملی۔جماعت اسلامی کی طرف سے انتخابات کے دوران پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت پر دھاندلی کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔ انتخابی نتائج آنے کے لگ بھگ ایک ماہ بعد بھی میئر کا انتخاب تاخیر کا شکار رہا۔اس دوران جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کی جانب سے اپنے اراکین کی پکڑ دھکڑ اور دبائو کی باتیں سامنے آتی رہی ہیں۔بلاشبہ پیپلز پارٹی کے پاس سب سے زیادہ نشستیں ہیں لیکن تحریک انصاف کی جانب سے جماعت اسلامی کی حمایت کے بعد ان کی نشستوں کی تعداد 126ہو جاتی ہے جو ایوان میں اکثریت ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔اس لحاظ سے جماعت اسلامی کو میئر شپ اور تحریک انصاف کو ڈپٹی میئر کا عہدہ مل سکتا ہے۔ کراچی ڈیڑھ کروڑ سے زاید آبادی والا شہر ہے۔اس کے مسائل شہری سطح کے ہیں جو صوبائی حکومت کی جانب سے بلدیاتی اداروں کو نظر انداز کرنے سے پیدا ہوئے۔ کراچی کا بڑا مسئلہ کوڑے کا ہے جو صاف نہیں کیا جا سکا ،سڑکوں پر بھاری ٹریفک ہے جس کی وجہ سے گھنٹوں کی تاخیر اور حادثات کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔ کراچی کا ایک اور مسئلہ اس کی کچی آبادیاں ہیں جو تیزی سے پیدا ہو رہی ہیں۔ یعنی کراچی ایک بہت کمپیکٹ سٹی بن چکا ہے۔ اس ہجوم نے ایسی عمارتوں کو بنایا ہے جن میں رہنے کے حالات تسلی بخش نہیں۔کراچی کو درپیش سنگین مسائل میں سے ایک تعلیمی حوالے سے غیر یقینی کی صورتحال ہے۔ اچھے تعلیمی اداروں کی کمی ہے ،کھیلوں والے پارکس بنا کر اور سکولوں کی تزئین و آرائش پر بھی کام کی ضرورت ہے ۔ سپریم کورٹ آف پاکستان 2011 سے شہر کے مسائل کی نشاندہی کر رہی ہے ۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چودھری نے کراچی کے امن و امان کے مسئلے کا ازخود نوٹس لیا تھا، لیکن شہر ابھی تک مستقل حل سے محروم ہے کیونکہ حکومتیں زیادہ تر ایڈہاک اقدامات کی طرف دیکھتی تھیں۔ پھر چیف جسٹس گلزار احمد نے تجاوزات ، قبضہ مافیا ، غیر قانونی بلڈرز اور نالوں کی صفائی سے متعلق مسائل اجاگر کئے ۔کراچی انتظامی اور سیاسی مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ پانی، بجلی، گیس یا دیگر شہری سہولیات کی فراہمی کے ذمہ دار تمام بڑے اداروں کے ساتھ مل کر زیادہ مافیاز طویل عرصے سے شہر کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ ان مافیاز کی وجہ سے کراچی کا کوئی بھی میگا پراجیکٹ مکمل نہیں ہوسکا جبکہ اربوں روپے خرچ کیے گئے۔کئی عشروں کے بعد گرین لائن منصوبہ رواں ہوا۔ کراچی کے مسائل کا حل طاقتور بلدیاتی نظام اور ہر سطح پر گڈ گورننس میں ہے۔ کراچی کو کے ایم سی، چھ ڈی ایم سیز، ڈی ایچ اے کے تحت چھ کنٹونمنٹ بورڈز اور اس کے تمام متعلقہ محکموں کے علاوہ وفاقی حکومت کے ماتحت جیسے کے پی ٹی دیکھتی ہے ۔جماعت اسلامی نے اس شہر کو اچھی بلدیاتی قیادت دی۔ ایم کیو ایم کے مصطفی کمال کا دور بھی اچھا سمجھا جاتا ہے ۔2008 کے بعد سے پیپلز پارٹی نے شہر کی حکومت حاصل کرنے کی کوشش کی ، یہ کوششیں اب تک جمہوری قوت سے محروم رہنے کے باعث کامیاب نہیں ہو سکیں۔اب وقت آگیا ہے کہ سندھ حکومت 18ویں ترمیم کے نفاذ اور اس شق پر غور کریں جو مالی، سیاسی اور انتظامی اختیارات مرکز سے صوبوں اور صوبے سے مقامی حکومتوں کو منتقل کرتی ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اکثریتی اتحاد کا مینڈیٹ اسی طرح مان لینا چاہئے جیسا پی ٹی آئی کے مقابلے میں وفاق میں پی ڈی ایم کا مینڈیٹ تسلیم کیا گیا۔ یہ مان لینا چاہیے کہ کراچی کو ایک چھتری کے نیچے آنا ہے ، شہر اور اس کے میئر کو دنیا بھر کے بڑے شہروں کے میئر جیسا درجہ اور اختیارات دینا ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ کراچی میں ہاوسنگ سیکٹر کا جائزہ لیا جائے۔ سیکڑوں اور ہزاروں اپارٹمنٹس، کمرشل اور رہائشی پلازے بنیادی سہولیات کے بغیر بنائے گئے ہیں۔ پرائم اراضی رعایتی قیمتوں پر تقسیم یا فروخت کی گئی ہے۔ دنیا کے دوسرے بڑے شہروں کی طرح کراچی میں بھی میٹروپولیٹن پولیس کا اپنا نظام ہونا چاہیے۔ شہر کا سب سے بڑا ‘اسٹیک ہولڈر’ کراچی کے شہری ہیں، جو گزشتہ 40 سال سے زائد عرصے میں بری انتظامیہ کا شکار ہیں۔ کراچی کا مینڈیٹ ووٹ سے طے ہوا ہے اس کا احترام کیا جانا چاہئے۔
٭٭٭