تانگہ پارٹ سے تانگہ پارٹی تک !!!

0
88

عمران خان کی مثال اس چوہے کی مانند ہے 30رات کو شراب خانے کے گلاسوں میں بچی کھچی شراب پی کر نشے میں آکر بلی کو للکارتا ہے جب نشہ اتر جاتا تو بلی سے ڈرتا پھرتا ہے لہذا عمران خان کا اب آج نشہ اتر چکا ہے جن کو اپنی اصلیت کا پتہ چل چکا ہے کہ میری اوقات چوہے والی ہے اگر عمران خان کے سیاسی سفر پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق سے جنرل فیض حمید تک ایک درجن پھر جنرلوں نے یہ بت تراش تھا جس کی اعلیٰ کلاس میں عبادت کرائی گئی جو اب ان ہی جنرلوں کے لئے وبال بن چکا ہے کہ جن کو9مئی جیسے سانحہ میں ملوث ہونے کے باوجود گرفتار نہیں کیا گیا ہے اگر انہیں گرفتار کیا جاتا ہے تو ان کے پیروکار9مئی کی طرح فوجی اداروں، بیرکوں، چھائونیوں، ہیڈکواٹروں، کورکمانڈروں یادگاروں اور شہیدوں کی قبروں پر پھر حملے کرتے ہیں۔ تاہم عمران خان کا تانگہ پارٹی سے اونٹ گاڑی سے ریل گاڑی سے تانگے پارٹی تک سفر بڑا دلچسپ ہے کہ جن کو باقاعدہ، منصوبہ بندی کے تحت گزشتہ44سالوں سے پالا گیا کہ جب جنرل ضیاء الحق نے اپنے غیر قانونی اور غیر آئینی اقتدار کو طول دینے کے لئے اداکاروں، مسخروں اور کھلاڑیوں کا سہارا لیں۔ کہ جب پاکستان نے بھارت سے1978میں کرکٹ میچ جیتا تو ملک بھر میں جشن مناتے ہوئے ایک دن کی چھٹی کرا دی گئی جیسا کہ کوئی ورلڈ کپ جیتا تھا حالانکہ یہ ایک ٹیسٹ میچ تھا۔ جب جنرل ضیاء الحق کو اپنے ہی منعقدہ کردہ ریفرنڈم میں منہ کی کھانا پڑی تو انہوں نے ملک میں غیر جماعتی اور غیر آئینی انتخابات کا انعقاد کیا جس میں ملک بھر کے بدمعاشوں، بدکرداروں، چوروں، ڈاکوئوں ڈرگ ڈیلروں کو بھرتی کیا گیا جو بھی ناکام ہوا تو ان کے سامنے ایک کھلاڑی عمران خان پیش کیے گئے جو اپنی36سالہ عمر اور کرکٹ میں تھک رہا کر ریٹائرمنٹ کا اعلان کر چکے تھے کہ جنرل صاحب نے پہلے انہیں وزارت کی پیش کش کی تھی پھر کرکٹ کا تاحیات کپتان بنا دیا جبکہ عمران خان اب کرکٹ کھیلنے کے قابل نہیں رہے تھے جو1992کے ورلڈ کپ تک کپتان رہے جنہوں نے پاکستان کی بہترین ٹیم کے جیتے ہوئے ورلڈ کپ کو اپنے نام کرلیا جو پاکستان کی تباہی کا باعث بنا جس کی بنا پر شوکت خانم بنایاگیا پھر انہیں جنرل گل حمید نے سیاست میں اتارا جس کے لئے ایک تانگہ پارٹی بنائی گئی جنہوں نے اپنی اس تانگہ پارٹی کے پلیٹ فارم پر1997کے انتخابات میں حصہ لیا جس میں ان کی ضمانتیں ضبط ہوگئیں۔ جنرل گل حمید کے بعد جنرل مشرف آغوش لے کر2002میں بڑی مشکل سے دھاندلی سے ایک نشست دلوائی۔ بعدازاں جنرل پاشا، جنرل ظہیر السلام، جنرل کیانی، جنرل راحیل شریف، جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید تک ایک طویل سفر ہے جس میں عمران خان کو مار دھاڑ، لوٹ مار، پورا نظام الیکشن بند کرکے2018میں وزیراعظم بنایا گیا جس میں پاکستان کے جنرلوں کا ایک طویل سازشوں، حماقتوں اور خباثتوں کی تاریخ پائی جاتی ہے جنہوں نے تانگہ پارٹی سے تانگہ پارٹی تک عمران خان کی ہر جائز ناجائز مدد کی تھی جس کی وجہ سے9مئی کا سانحہ برپا ہوا ہے کہ آج ہمیں پتہ نہیں چل رہا ہے کہ سانحہ کس طرح اور کیوں برپا ہوا ہے جس کے پیچھے کیا عزائم تھے کے آج پاکستان پوری دنیا میں رسوا ہو کر رہ گیا ہے۔بہرکیف عمران خان کا زمان پارک قلعہ جو آٹھ مئی تک جنگ جوئوں سے بھرا پڑا تھا وہ آج خالی نظر آرہا ہے وہ عمران خان جو کل قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنے قریب نہیں آنے دیتے تھے جن کے سامنے عدلیہ بے بس ہوچکی تھی جو آج تک ان کی سہولت کاری بنی ہوئی ہے وہ بھی سوچنے پر مجبور ہوگی کہ وہ کب تک پر مردہ لاش اٹھائے پھرے گی وہ تانگہ پارٹی جو کل ریل گاڑی بنی ہوئی تھی کہ جس میں سفر گزرنے کے لئے جگہ نہ تھی وہ آج دوبارہ تانگہ پارٹی بن چکی ہے آج زمان پارک اور بنی گالہ بھوتوں کی آما جگاہ بن چکے ہیں جن کے موسمی پرندے اڑ کر ترین کے کھونسلوں میں پناہ لے چکے ہیں۔ جن کی فوج پورس کی فوج بن ثابت ہوئی ہے۔ جن کے ہاتھوں نے اپنی فوج کچل ڈالی ہے جو بھی رشتہ سوار گرفتار ہوتا ہے وہ فی تلافی مانگ کر عمران خان سے لاتعلق ہو جاتا ہے بہرحال کسی نے کیا خوب فرمایا کہ اپنے سے بڑے کے چوتڑوں میں نہیں گھسنا چاہیے جب بند ہوجائیں تو وہ اندر بند ہوجاتا ہے یہی حال عمران خان کا ہوا ہے جو چوہے کی طرح نشے میں آگیا تھا جب نشہ اترا تو پتہ چلا کہ میں چوہا چوہا ہوتا ہے بلی بلی ہوتی ہے لہذا چوہا بلی سے نہیں بچ سکتا ہے یہی کھیل آج چل رہا ہے کہ بلی چوہے کو پکڑ رہی ہے مگر نہ جانے کیا وجوہات ہیں کہ چوہا ابھی تک پکڑا نہیں جارہا ہے آخر بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here